سڈنی کا شاہکار پاکستانی قونصل خانہ

جمعرات 21 ستمبر 2023
author image

عباس سیال، سڈنی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج سے چھ ماہ قبل ایک دوست کو آسٹریلیا میں موٹر سائیکل بھگاتے دیکھا تو دل میں خواہش جاگی کہ مجھے بھی بائیک لینی چاہیے۔ آسٹریلین قانون کے تحت موٹر بائیک کیلئے علیحدہ لائسنس درکار ہوتا ہے۔ میرے پاس فقط گاڑی کا لائسنس تھا۔چنانچہ بائیک کے لائسنس کیلئے 11مئی کے روز ٹیسٹ بک کروایا اور پندرہ بیس منٹ کا ٹیسٹ پاس کرکے کاؤنٹر پر بیٹھی محترمہ کے سامنے اپنا پاکستانی لائسنس اس امید سے رکھا کہ مجھے بائیک کا فُل لائسنس دیا جائے گا۔لائسنس دیکھتے ہی انہوں نے میرا پاکستانی نائیکوپ مانگا،پھر وہ کاؤنٹر سے اٹھیں، اندر کمرے میں گئیں۔ چند منٹ بعد واپسی پر لائسنس کا تفصیلی پرنٹ آؤٹ میرے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولیں: ”آپ اس پرنٹ آؤٹ کو اپنے قونصل خانے سےتصدیق کراکے میرے پاس لائیے تاکہ آپ کو بائیک کا فُل لائسنس دیا جا سکے“۔

یہ منظر دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا: ”آپ نے میری تفصیل کیسے نکالی؟“۔ وہ جواباً مسکراتے ہوئے بولیں،لائسنس کے پیچھے ویب سائٹ کا ایڈریس دیا ہوا ہے۔ میں نے وہاں آپ کا آئی ڈی کارڈ نمبر ڈالا اور اس کا پرنٹ نکال لیا۔ جہاں میں اس کی پروفیشنل ٹریننگ کا قائل ہو گیاوہیں پاکستانی قونصل خانے کا نام سنتے ہی مجھے عجیب سی کوفت محسوس ہوئی کیونکہ میرا پاکستانی قونصل خانے سے 2 بار واسطہ پڑ چکا تھا اور دونوں بار ہی مجھے ان کی سروس سے سخت مایوسی ہوئی تھی۔

پہلی بار 2007 ء میں گاڑی کے لائسنس کی تصدیق کیلئے فارم بھیجا تھا ۔ اور پھر فون کرکر کے ہلکان ہو نے کے بعد مجبوراً ”ریڈ پی لائسنس“ پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ دوسرا تجربہ اس سے بھی تلخ تھا جب 2014ء میں میری کتاب ”فرنٹیئر کے ذائقے“ہندی اور اردو میں بیک وقت چھپی تھی ۔ اس کتاب کو چائنہ کے گورمنڈ کوزین کی انڈیا ،پاکستان کیٹگری میں مشترکہ ورلڈکُک بک فار پیس ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔اسی کتاب کے سلسلے میں مجھے انڈیا کا ویزہ درکار تھا۔ جب سڈنی میں انڈین قونصل خانے سے رابطہ کیا تو پتہ چلا تھا کہ مجھے آسٹریلین پاسپورٹ سمیت پاکستانی پاسپورٹ بھی جمع کروانا ہوگا،مجبوراً مجھے پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید کیلئے اپنے قونصل خانے کا رخ کرنا پڑا تھا۔

وہاں قونصل خانے میں بیٹھے نوجوان نے پوچھا تھا، آپ کے پاس پہلے سے نائیکوپ ہے تو پاسپورٹ کی تجدید کیوں کروا رہے ہیں،کیا عمرے کا ارادہ ہے؟۔میں نے جواب دیا،نہیں مجھے کتاب کے سلسلے میں انڈیا جانا ہے۔انڈیا کا نام سن کر پتہ نہیں کیوں اس کے تیور بدل گئے؟بڑی ناگواری سے میری تصویر کھینچی اور اس وقت میری چھٹی حس نے بتا دیا کہ یہ بندہ مجھے ضرور خوارکرے گا، اور وہی ہوا کہ جس کا خدشہ تھا۔ میرے جینوئن پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید کیلئے پہلے کسی بندے کو میرے گھر بھیجا گیا تاکہ پتہ چلایا جائے آیا میں واقعی پاکستانی شہری ہوں یا کسی دشمن ملک کا ایجنٹ تو نہیں۔ گھر والوں کی زبانی یہ خبر سن کر مجھے افسوس ہوا۔

اِسی دوران کتاب کی رونمائی کا وقت آن پہنچا مگر پاسپورٹ نہ مل سکا۔پتہ نہیں کتنی بار فون کھڑکائے ہوں گے۔اگر وہ فون اٹھا بھی لیتے تو ایک ہی جواب ملتا:پاسپورٹ ابھی نہیں پہنچا۔بالآخر میں تھک ہار کر نا اُمید ہو گیا۔اِسی دوران عظمی آپا کی سرگزشت پرلکھی میری کتاب ”جو ہم پہ گزری“ چھپ کر مارکیٹ میں آگئی، جس نے ”کے پی کے“ کا اباسین ایوراڈ جیتا۔24مئی2014کے دن سڈنی میں کتاب کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا۔ چونکہ عظمیٰ گیلانی فن کی دنیا کا ایک معتبر حوالہ ہیں اسی لئے سڈنی کی کریم نے اس تقریب میں شرکت کی جس میں قونصلیٹ جنرل عقیلی صاحب بھی شریک ہوئے جنہیں ایک کونے میں لے جا کر پاسپورٹ نہ ملنے کا شکوہ کیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ بھرپور تعاون کریں گے اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ اگلے ہفتے میرے پتے پر پاسپورٹ ارسال کر دیا گیا۔ جب پاسپورٹ کھول کر دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس پر تاریخ اجراء 29نومبر2013 درج تھی جو بدھ کے دن 28مئی2014 کو مجھے سفارش کروانے پر موصول ہو رہا تھا۔

افسوس کہ چھ ماہ تک میرا پاسپورٹ قونصل خانے کے کسی افسر کی دراز میں سڑتا گلتا رہا مگر ہر بار مجھے یہی بتایا گیا کہ ابھی پاسپورٹ نہیں پہنچا۔میرے لئے اب انڈیا جانا بے سود تھا لیکن دل نے بغاوت کی کہ اب ضرور جاؤں گا۔انڈین ویزے کیلئے آن لائن فارم بھرا اور پاسپورٹ ہاتھ میں تھامے انڈین قونصلیٹ جا پہنچا۔انڈین قونصلیٹ کا وسیع سروس کاؤنٹر کسی شاندار کال سنٹر کی طرح لگ رہا تھا۔کمپیوٹر سامنے رکھے قطار میں انڈین عملہ بیٹھا تھا۔میرے ساتھ کئی آسٹریلین باشندے بھی پاسپورٹ جمع کروا رہے تھے۔ ویزے کیلئے مجھے پانچ ہفتے کے انتظار کا کہا گیا مگر چوتھے ہفتے ہی ویزہ میرے ہاتھوں میں تھا۔ان کی سب سے بہترین بات اُن کی سبک رفتار، جدید معیاری کسٹمر سروس اور ہر درخواست کیلئے ریفرنس نمبر جاری کرنا تاکہ کسٹمر جب کبھی فون ملائے یا ای میل کرے تو صرف اپنا ریفرنس نمبر بتائے، فوراً اپ ڈیٹس بتا دی جاتی ہیں۔دوسری طرف ہم ہیں کہ ہر بار فون کرنے کے بعد یوسف زلیخا کی کہانی پھر سے سنانا پڑتی ہے۔

دو تلخ تجربات کے بعد بائیک کے لائسنس کیلئے یہ میرا تیسرا تجربہ تھا۔قونصلیٹ جنرل اینڈ ٹریڈ کمیشن آف پاکستان سڈنی کی تھکی ہاری ویب سائٹ سے لائسنس ویری فکیشن کا فارم ڈاؤن لوڈ کرکے قر یبی پوسٹ آفس سے بیس ڈالرکا منی آرڈر اور ساتھ میں جوابی لفافہ ڈال کر ارجنٹ میل بھیجی۔ آسٹریلین پوسٹ کی ایکسپریس میل ٹریکنگ سے پتہ چلا کہ منی آرڈر سمیت درخواست قونصل خانے کو موصول ہو گئی ہے۔دوہفتوں تک کوئی جواب نہ آیا۔ فون کریں تو ہمیشہ فون پر ریکارڈ شدہ میسج سننے کو ملتا، مجبوراً ویب سائٹ سے اِی میل اور و ٹس ایپ نمبر لئے۔ ای میلز، وٹس ایپس کی سروس سے جواب ندارد۔وہاں کا عملہ ای میل کھولنا تک گوارا نہیں کرتا اور نہ ہی واٹس ایپ انکوائری کا جواب دیا جاتا ہے۔

بار بار فون کرنے کے باوجود، ہر بار الف سے یے تک بتانے کے بعد میری ہمت جواب دے گئی اور سختی سے کہا کہ اپنے مجاز افسر سے میری بات کروائی جائے۔ ان سے بات ہوئی تو پھر سے ساری تفصیل ان کے گوش گزار کی اورانہیں سمجھایا کہ خدارا سرکاری ویب سائٹ سے سہولت اٹھائیں مگر سب بے سود۔آخرکارتھک ہار کر14ستمبر کے دن چھٹی لی اور قونصل خانے کا قصد کیا۔قونصل خانے کے داخلی دروازے پر اونچی اونچی آوازوں نے میر استقبال کیا اور اندر داخل ہوتے ہی کوئی پاکستانی غصے سے باہرنکل رہا تھا۔میں کرسی پر بیٹھ کر اردگرد کے ماحول کا تقابلی جائزہ لینے لگا۔دس سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ سروس کاؤنٹر پر کھڑے شخص کے سامنے صرف کاغذ، ایک پرانی سی فائل اور پیچھے ایک مہر پڑی تھی۔

ایسے لگتاتھا کہ جیسے بندہ ٹائم مشین میں بیٹھ کر پتھر کے عہد میں پہنچ گیا ہو۔ اپنی باری آنے پر لائسنس دکھایا اور ساتھ ہی شکوہ کیا کہ میں یہاں مجبوراً آیا ہوں، نہ آپ لوگ فون اٹھاتے ہیں؟ نہ ای میل اور نہ وٹس ایپ کا جواب، کیسی سروس ہے آپ کی؟۔وہ شخص پہلے والے کسٹمر سے تپا کھڑا تھا، فون کا کریڈل مجھے تھماتے ہوئے بولا: یہ اٹھاؤ اور مجھے مارو۔ بھائی مجھے آپ سے الجھنے اور آپ کو مارنے کا کوئی شوق نہیں، مجھے آپ کی ناقص کسٹمر سروس سے شکوہ ہے۔ مگر اس کی ایک بات ٹھیک کہ یہ میرا کام نہیں، اور یہ واقعی اس کا کام نہیں کیونکہ یہ مینجمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ شور سن کر کمرے سے ایک نوجوان باہر نکلا، اس کے سامنے پھر داستان امیر حمزہ چھیڑی اور کہا گزشتہ چار مہینوں سے ایک چھوٹے سے کام کیلئے آپ لوگ ذلیل و خوار کر رہے ہیں۔

عملے کے پاس درخواست کا کوئی ٹریک ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ درخواست کے ثبوت مانگے گئے،دوبارہ ثبوت دکھائے۔وہاں سب کچھ اللہ کے نام پر چل رہا ہے، اگر آپ ناقص سروس کی بات کریں تو وہاں کا عملہ اسے اپنی ذات پر حملہ سمجھتا ہے اور آف دا کیمرہ جا کر گالیاں دیتا ہے۔ میری درخواست پر کہ مجھے قونصل خانے کے سربراہ سے ملایا جائے میرے ان سے کئی سوالات ہیں، مگر افسوس کہ میری درخواست پر مجھے متعلقہ شخص سے نہیں ملوایا گیا بلکہ مجھے کہا گیا کہ میں انسپکٹر جنرل کے پی کے پولیس سے خود رابطہ کرکے اپنا کام نکلواؤں۔ایک چھوٹا سا کام جو آن لائن سرانجام دیا جا سکتا تھا اس کیلئے مہینوں کی خواری۔میری لائسنس کی ویری فکیشن اب ناممکن امر ہے کیونکہ میں نے اُن کی کارکردگی پر سوال اٹھایا ہے۔یہ صرف مجھ جیسے تارک وطن کی کہانی نہیں بلکہ ہم سب پاکستانی اسی اذیت سے گزر رہے ہیں۔

میں گزشتہ بیس برس سے آسٹریلیا میں مقیم ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ آسٹریلیا میں قائم سارے ممالک کے قونصل خانوں میں دستاویزات کی تصدیق جیسے معمولی کام چٹکی بجاتے ہو جاتے ہیں۔ انڈین حکومت اپنے سمندر پار شہریوں کی فلاح و بہبود کو بڑی اہمیت دیتی ہے اور دنیا بھر میں انڈین سفارت خانے اپنی عوام کو بہترین سروس مہیا کرتے ہیں، جن کا میں خود عینی شاہد ہوں۔لیکن ہمارے سفارت خانے، قونصل خانے اپنے پاکستانی بھائیوں کو اتنی اذیت دیتے ہیں کہ اس کا جواب نہیں۔محض دستاویزات کی تصدیق میں سفارت خانہ مہینوں وقت صرف کردیتا ہے۔یہ لوگ سارے عمل کو اتنا پیچیدہ بنا دیتے ہیں کہ لوگ براہ راست سفارت خانے سے رابطہ کرنے کی بجائے کسی سفارش اور اثر رسوخ سے کام نکلوا لیتے ہیں۔جب لائسنس کی تصدیق کیلئے حکومت پاکستان نے لاکھوں روپے لگا کر ویب سائٹ بنا رکھی ہے تو اس آن لائن سہولت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ کسٹمرپوسٹ آفس جا کر بیس ڈالر کے منی آرڈر کے ساتھ منی آرڈر فیس، سولہ ڈالر کا ایکسپریس لفافہ اور سولہ ڈالر کا جوابی لفافہ خرید کر بیس ڈالر کی فیس کے پیچھے پچاس ڈالر اضافی ضائع کیوں کرے؟ قونصل خانے کا بینک کہاں ہے؟

ہمارے قونصل خانے بھی اللہ کے رازوں میں ایک را زہیں، انہیں کون چلا رہا ہے؟ درخواستیں وصول کرنے، ای میل کا جواب دینے، فون اٹھانے کا ذمہ دارکون ہے؟ عملے کی تربیت اور پروفیشنل ٹریننگ کا انتظام کہاں ہے؟ عملے کی لاپروائی کی شکایات کے اندراج کا نظام کیوں نافذ نہیں کیاگیا؟ویب سائٹ پر شکایتی سیکشن اور آفس میں شکایتی باکس کہاں پرہے؟ کام نہ ہو نے پر کس مجاز افسر سے رابطہ کیا جا سکتا ہے؟عملے کی کارکردگی کو کیسے جانچا جاتا ہے؟زبانی شکایت کرنے سے جو رد عمل ملتا ہے وہ تو میں نے خود جا کر دیکھ لیا کہ آف دا کیمرہ کیسی زبان استعمال کی گئی وہ یہاں لکھی نہیں جا سکتی۔

اگرمجاز افسر کے پاس وقت ہو تو آئیے میں آپ کو کسی بھی دوسرے ملک کے قونصل خانے لے جاتا ہوں اور اگر کوئی تارک وطن پاکستانی میری تحریر پڑھ رہا ہے تو اپنے شہر کے کسی بھی پاکستانی سفارت خانے، قونصل خانے کی ویب سائٹس پر جا کر اس کا موازنہ ہندوستان سے کریں، یا پھر کسی انڈین قونصلیٹ میں کسی کام کے بہانے جا کر وہاں کی سروسز کا جائزہ لیں اور پھر اُسی دن پاکستانی قونصل خانے کا چکر لگاکر دونوں ملکوں کی سروسز کا تقابلی جائزہ لیں۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ جدید دنیا کے جدید ملک کے کسی جدید شہر میں قائم پاکستانی قونصل خانے میں نہیں بلکہ پتھر کے دور میں آ پہنچے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ23مارچ اور14 اگست کی تقاریب میں کالی شیروانیاں پہن کر قومی پرچم لہرانے، ملی نغمے گانے کے علاوہ ہمارے سفارت کار کچھ بھی نہیں کر رہے۔پاکستانی اداروں اور حکمرانوں سے دست بدستہ گزارش ہے:خدارا! پردیس میں سیاسی بنیادوں پر نااہل سفارت کار اور سفارتی عملہ بھیجنے کی بجائے ایسے قابل پروفیشنلز کو تعینات کیا جائے کہ جو بیرونی ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر پاکستان کیلئے تجارت کو فروغ دے سکیں اور ساتھ ہی بیرون ملک پاکستانی کی زندگیوں میں سہولت پیدا کرنے کا باعث بن سکیں۔اگر یہ ناممکن ہے توسارے سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرکے آن لائن سروسزکا اجراء کیا جائے تاکہ قومی خزانے پرکروڑوں کا بوجھ پڑنے کی بجائے یہی پیسہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جا سکے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

صوبہ سندھ کے ضلع مٹیاری میں آج عام تعطیل کا اعلان

اسکولوں میں بچوں کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد

ٹریک کم، ٹرینیں آدھی، زمینوں پر قبضے، آئینی عدالت میں ریلوے کارکردگی پر کڑی تنقید

آئین کی تشریح شفافیت، آزادی اور دیانت کے ساتھ کی جائے گی، چیف جسٹس آئینی عدالت امین الدین

’طلحہ انجم نے بھارتی جھنڈا لہرا کر بہت اچھا کیا‘، فرحان سعید کی حمایت پر عوام کا شدید ردِعمل

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟