سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا ہے۔
3 صفحات پر مشتمل حکمنامے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اسٹے آرڈر خارج کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ابھی زیر سماعت ہے، چیف جسٹس 2 سینیئر ججوں سے بینچز کی تشکیل پر مشاورت کریں گے۔
حکمنامے میں درج ہے کہ دوران سماعت 2 درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کے دلائل سنے گئے۔
مزید پڑھیں
’اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہوں نے اہم کیس کے سلسلے میں ویانا جانا ہے، اور ساتھ ہی ججوں کی جانب سے کیے گئے سوالوں کے جواب دینے کے لیے وقت بھی مانگا‘۔
حکمنامے کے مطابق کیس کی مزید سماعت 3 اکتوبر کو ہو گی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چارج سنبھالتے ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا اور پیر 18 ستمبر کے روز اس کی سماعت ہوئی۔
ملکی عدالتی تاریخ میں پہلی بار عدالتی کارروائی براہِ راست دکھائی گئی۔
چیف جسٹس نے کیس کی پہلی سماعت کے موقع پر کہا کہ اس کیس کو حل کرنے کا بہتر طریقہ یہ تھا کہ اس پر فل کورٹ بنایا جائے۔ فل کورٹ کے لیے 3 درخواستیں بھی آئی تھیں۔ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے ایک درخواست پاکستان بار کونسل کی جانب سے اور 2 دیگر کی جانب سے دائر کی گئیں، انہوں نے کہاکہ درخواستوں کو منظور کیا جاتا ہے۔
کیس کی سماعت کے پہلے روز 2 درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کی جانب سے دلائل دیے گئے۔
پہلے روز کی سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ کوشش کے باوجود آج کیس کی سماعت مکمل نہیں کر سکے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 بل کیا ہے؟
پارلیمان سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور 2 سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی، جس میں کم از کم 3 ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔