آج کے جدید دور میں موبائل فون عام ہو جانے کے بعد تصویریں لینے کا شوق تو سب کو ہی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ فوٹو گرافی ایک پورا شعبہ بن چکا ہے جس سے لوگ بڑی کمائی کر رہے ہیں۔
یوں تو اکثر لوگ زندہ لوگوں کی تصویریں لینا پسند کرتے ہیں لیکن بھارت کی ریاست تامل ناڈو کے رویندرن اور رچرڈ کینیڈی مردہ لوگوں کی تصویریں لینے کے شوقین ہیں۔ جتنا یہ سننے میں عجیب ہے اتنا ہی کرنے میں بھی عجیب ہے تاہم رویندرن اور رچرڈ کینیڈی کئی برسوں سے اس سے اپنی روزی کما رہے ہیں۔
19ویں صدی کے وسط سے فوت شدہ افراد کا فوٹو لینے کا رواج بہت سے ممالک میں رائج ہے، بہت سے غم زدہ خاندان اپنے مردہ بچوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنواتے تھے۔ امریکا میں مردہ لوگوں کے ساتھ تصاویر اکثر گھروں کے اندر لی جاتی تھیں، لاش کو برف کے ایک بلاک پر رکھا جاتا تھا اور اس کے ساتھ تصویریں بنوائی جاتی تھیں۔
برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا کی موت کی تصویر بھی مقبول ہوئی تھی۔ لیکن 20 ویں صدی میں دنیا کے بہت سے حصوں میں یہ رواج ختم ہو گیا، یہ رواج تامل ناڈو اور دیگر ہندوستانی ریاستوں جیسے مغربی بنگال اور اڑیسہ کے ساتھ ساتھ دیگر علاقوں میں اب بھی قائم ہے۔
رویندرن اور رچرڈ کینیڈی تک یہ رواج کیسے پہنچا؟
رویندرن کو یہ شعبہ ان کے والد سری نواسن سے ملا۔ شروع شروع میں انہیں یہ سب کچھ بہت عجیب بھی لگتا تھا۔ رویندرن کی عمر صرف 14 سال تھی جب ان کے والدی نے انہیں پہلی اسائنمنٹ پر بھیجا، رویندرن کو ایک مردے کو سیدھا بیٹھا کے اس کی تصویر لینا تھی۔
اسی طرح رچرڈ کو بھی کام 9 سال کی عمر ہی سے شروع کرنا پڑا۔ ان کو ایک کرسی کے پیچھے ایک سفید کپڑا اٹھانے کو کہا گیا جس پر ایک لاش کو بٹھایا گیا تھا اور اس لاش کی تصویریں بنانا تھیں۔
ایک انٹرویو کے دوران رچرڈ نے بتایا کہ اس واقعہ کے بعد وہ کافی سہم گئے تھے۔ ان کو کافی دن تک نیند بھی نہیں آئی تھی کیونکہ ان کو خواب میں بھی وہی لاش نظر آتی تھی۔ اس چیز نے رچرڈ کے دماغ پہ کافی گہرا اثر چھوڑا۔
دونوں بھائی فوٹوگرافر بن گئے کیونکہ ان کے والد فوٹو اسٹوڈیوز کے مالک تھے۔ اس کے بعد ان دونوں نے ایک ہزار سے زیادہ مردہ لوگوں کی تصاویر کھینچی ہیں۔
رویندرن کہتے ہیں کہ نوعمری میں انہیں یہ کام ناگوار لگا، وہ اسکول چھوڑنا چاہتے تھے اور یہ ایک اچھا بہانہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ’ چند مہینوں کی ٹریننگ کے بعد میں مردہ لوگوں کی تصاویر بنانے اکیلا گیا، میں نے اپنے خوف کا مقابلہ کیا اور پھر تصاویر میں لاشوں کو اچھا اور حقیقی دکھایا۔‘
رچرڈ کینیڈی اپنے والد کے ساتھ یرکاڈ پہاڑیوں میں کام کرتے تھے، جو تامل ناڈو کے دارالحکومت چنئی سے تقریباً 350 کلومیٹر (تقریباً 217 میل) مغرب کی طرف ہیں۔ ان کا سب سے مشکل تجربہ چھوٹے بچے کی لاش کی تصویر لینا تھا جو پیدا ہوتے ہی فوت ہوگیا تھا۔
رچرڈ کینیڈی کہتے ہیں کہ ’ مردہ بچے کی ماں بے ساختہ رو رہی تھی۔ دونوں ماں باپ کے چہرے پہ حد سے زیادہ اداسی تھی۔ لیکن میرے آنے پہ ماں نے بیٹے کو اچھی طرح تیار کیا۔ تصویر لینے سے پہلے اس کی ماں نے بچے کو گود میں لیا اور میں نے اس کی تصویر بنائی۔‘
رویندرن کا کہنا ہے ’میں ایک قبرستان میں بھی گیا اور اس لمحے کی تصویر کشی بھی کی جب لاش کو قبر میں رکھا جا رہا تھا۔‘
رویندرن اور رچرڈ دونوں نسبتاً غیر نفیس کیمرے استعمال کرتے تھے جو سیاہ اور سفید تصاویر لیتے تھے، ان کے زیادہ تر گاہک ہندو اور عیسائی تھے، جو آج بھی اپنے پیاروں کی تصویریں اپنے گھروں میں لگا کے رکھتے ہیں۔
رچرڈ نے محکمہ پولیس کے لیے بھی کام کیا، جہاں اس نے غیر فطری اموات، جرائم، خودکشیوں اور سڑک حادثات کے متاثرین کی تصویریں لی جہاں اکثر لاشیں بری طرح مسخ ہو جاتی تھیں۔ اس چیز نے ان کی نفسیات پر بہت برا اثر کیا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی تصویروں کو ثبوت کے طور پر عدالتوں میں بھی استعمال کیا گیا۔
ہندو رواج میں لاشوں کے ساتھ کام کرنا بہت برا سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے تصویر کھینچنے کے لیے کسی گھر آنے سے پہلے رویندرن کو ایک رسم سے گزرنا پڑتا تھا کیونکہ مردے کے گھر والوں کا ماننا تھا کہ اس سے ان کے روح پاک ہوجائے گی۔
رویندرن کا کہنا ہے کہ’ مجھے ہر بار نہانے کی ضرورت تھی، میرے والد میرے کیمرے کو اسٹوڈیو کے اندر لے جانے سے پہلے اس پر پانی بھی چھڑکتے تھے۔‘
وقت کے ساتھ ساتھ جب اس طرح کے کام میں کمی آئی تو رچرڈ نے چرچ کی تقریبات اور تہواروں کو کور کرنے کا رخ کیا۔ رویندرن نے اسکول کے پروگرامز اور عوامی پروگرامز پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی اور آخرکار وہ شادی کی تقریبات کے فوٹوگرافر بن گئے۔
رویندرن 60 سال کی عمر میں مرنے والوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے انہیں اپنی تصویریں کے ذریعے روزی کمانے اور موت کے خوف پر قابو پانے میں مدد کی، تاہم ان کے خیالات اب یہ ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی ان کی تصویریں نہ لے۔
رویندرن کے برعکس رچرڈ جو اب 54 سال کے ہیں، ان کے پاس اب بھی مرنے والوں کی تصاویر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہیں کہ وہ میری موت کے بعد میری تصویر لیں اور اسے سنبھال کے رکھیں۔