نقیب اللہ محسود قتل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار و دیگر کی بریت کے خلاف اپیل دائر کردی گئی ہے۔
نمائندہ وی نیوز کے مطابق اپیل سندھ ہائیکورٹ میں مقتول نقیب اللہ محسود کے بھائی شیر عالم کی جانب سے جبران ناصر ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر کی گئی ہے۔
درخواست گزار نے اپیل میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو بری کرکے شواہد نظر انداز کیے ہیں ، اس لئے عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
گواہوں کے بیانات دوبارہ ریکارڈ کیے جائیں، وکیل درخواست گزار
کیس کے وکیل جبران ناصر نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نقیب اللہ قتل کیس کے فیصلے کے خلاف تین اپیلیں فائل کی ہیں، سپریم کورٹ کے اس حوالے سے ججمنٹ ہے کہ مختلف کیسز کو یکجا کرکے ایک فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ایک کیس کے شواہد دوسرے کیس میں استعمال نہیں کئے جاسکتے، سی ڈی آر کے لئے گواہ طلب کیا گیا ہماری طرف سے اس کو نہیں بلایا گیا، تین مقدمات کے گواہ الگ الگ چلائے جاتے۔
جبران ناصر نے کہا کہ ہمارے عینی شاہدین کی گواہی پر شک کیا گیا۔ عینی شاہدین نے مجسٹریٹ کے سامنے بیانات دیے تھے لیکن ان بیانات کو نظر انداز کر دیا گیا، فیصلے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ گواہوں کو صرف اس لیے نظر انداز کیا گیا کہ ان کا تعلق وزیرستان سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ اس کیس کو ٹرائل کے لیے دوبارہ بھیجا جائے، قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جائیں۔
‘ہائیکورٹ سے توقع کرتے ہیں کہ یہاں سے ہمیں انصاف ملے گا’
اس موقع پر نقیب اللہ محسود کے بھائی عالم شیر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آج ہماری جانب سے اپیل جمع کروا دی گئی ہے، اے ٹی سی سے جس انصاف کی توقع تھی وہ نہیں ملا، ہائیکورٹ سے توقع کرتے ہیں کہ یہاں سے ہمیں انصاف ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا شروع دن سے یہ مطالبہ تھا کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے، ہم یہ کیس ہائیکورٹ میں ہی لڑیں گے اور ضرورت پڑی تو آگے بھی جائیں گے۔
واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ 23 جنوری 2023 کو سنایا تھا، عدالت نے عدم شواہد کی بناء پر راؤ انوار سمیت 18 ملزمان کو بری کردیا تھا۔
نقیب اللہ محسود کو کب قتل کیا گیا؟
یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود اور ان کے تین ساتھیوں کو 13 جنوری 2018ء کی صبح کراچی میں پولیس اہلکاروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا اور اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے تھا۔
معاملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے پولیس کی جانب سے مقابلے کے دعوے کو مسترد کیا تھا، بعدازاں جنوری 2019 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہی نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی، اسلحہ و بارود رکھنے کے الزام میں دائر پانچوں مقدمات خارج کردیے تھے اور قرار دیا تھا کہ نقیب اللہ کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ‘وہ ایک لبرل، فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا جو ماڈل بننے کا خواہش مند تھا۔’
راؤ انوار اور دیگر کے خلاف مقدمہ
عوامی رد عمل اور انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد کراچی میں ملیر کے تھانے سچل میں ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقتول نقیب اللہ کے والد کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔