عالمی یوم اساتذہ پر خصوصی تحریر
بچوں کے اسکول سے فون تھااور پرنسپل صاحبہ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں۔ میرے بچے ایک نجی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اس اسکول کا تعلق اسکولوں کے اس زنجیرے سے ہے جسے میرے جیسے، سفید پوش، افراد اپنے تئیں (اپنے لیے) مناسب خیال کرتے ہیں۔ پرنسپل صاحبہ چوں کہ بچوں کے وسط مدتی نتائج سے مطمئن نہیں تھیں، اس لیے وہ یہ چاہتی تھیں کہ ہم(والدین) بچوں کو گھر پر بھی وقت دیں تاکہ وہ آنے والے امتحانات میں کامیاب ہوسکیں۔
میں نے ان سے مودبانہ عرض کیاکہ مادام ایک گتھی ہے جو سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اگر آپ سلجھا دیں تو ممنون ہوں گا۔ بچےصبح آٹھ سے دو بجے تک آپ کے اسکول ہوتے ہیں اور ساڑھے تین سے ساڑھے چھے بجے تک آپ کے اسکول ہی کی اکیڈمی میں اپنی درسی کوتاہیاں دور کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہوتے ہیں مگربقول اختر عثمان۔ ۔ ۔
یہ کار ِعاشقی ہے عجب کارِناتمام
سمجھیں کہ ہورہا ہے مگر عمر بھر نہ ہو
اس دوران میں انھیں اسکول سے گھر آنے اور پھر واپس آنے، لباس تبدیل کرنے اور کھانے کے لیے بمشکل ڈیڑھ گھنٹا ملتا ہے۔ سات بجے تک ان کی واپسی ہوتی ہے اور ساڑھے سات بجے تک قاری صاحب آجاتے ہیں۔ اب مجھے آپ ہی بتائیں کہ ایک والد کے طور پر میرا یہ فرض نہیں بنتا کہ انھیں تھوڑا سا وقت گپ شپ اور تفریح کے لیے دوں یا یہ کروں کہ انھیں کھانے کے بعد ایک بار پھر پڑھنے کے لیے بٹھا دوں؟مادام مجھے دیکھے جارہی تھیں، اور بس دیکھے ہی جارہی تھیں۔ مجھے مایوسی ہوئی کہ ان کے پاس بھی اس گتھی کو سلجھانے کا کوئی تیر بہدف نسخہ نہیں تھا۔
یہ ایک عام معاملہ ہے جو یقیناًآپ کے ساتھ بھی پیش آیا ہوگا بلکہ اکثر آتا ہوگا۔ کبھی ہم نے سوچا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے مجموعی رویے اور رجحانات کیسے تبدیل ہوئے؟تعلیم کا شعبہ جسے خدمت کا درجہ حاصل تھا، کیسے کاروبار میں تبدیل ہوا؟آئیے آپ کو اپنے بچپن میں لے چلتا ہوں، جو یقیناً ان سب کا بچپن ہے جنھوں نے نوے کی دہائی تک سرکاری اسکولوں میں، ٹاٹ پر بیٹھ کر، پڑھا۔
یادش بخیر، یہ اسی کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے جب پہلی جماعت میں میرا داخلہ فیڈرل گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول گولڑا شریف میں ہوا۔ پرائمری سیکشن مربع یا مستطیل نما تھا، درمیان میں خوب صورت سے دوسرسبز لان تھے اور اکثر ان میں بھی بچے ٹاٹوں پر بیٹھے پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ماسٹر جی کے لیے ایک کرسی ہوتی تھی۔ شمالاً جنوباًبڑے بڑے روشن اور ہوادار کمرے تھے، جن کے آگے وسیع و عریض برآمدے تھے، جب کہ مشرقی اور مغربی سمت میں دیواریں تھیں، جن میں، آمد ورفت کے لیے ایک ایک دروازہ تھا۔
مشرقی دیوار والا دروازہ جدھر کھلتا تھا، اس کے جنوب میں بچوں کےکھیلنے کودنے اورچھابڑی، خوانچے والوں کے لیےکھلی جگہ تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سردیوں میں ہماری تعلیمی سرگرمیاں اسی کھلی جگہ پر ٹاٹ پر جاری رہتی تھیں۔ جب کہ شمال میں ہائی اسکول کی نئی تعمیر شدہ دو منزلہ عمارت تھی، جس کی طرف ہم حسرت سے دیکھتے تھے کہ وہاں پڑھنے والوں کو میزوں اور بینچوں کی سہولت حاصل تھی۔
ہائی اسکول کی دومنزلہ عمارت اور کھلی جگہ کے درمیان پیپل کا ایک بہت بڑا اور گھنا درخت تھا، جس کے ایک بڑے تنے کے ساتھ ایک آہنی گول توااور ایک ہتھوڑابندھا ہوتا تھا۔ آہنی توے پر ہتھوڑے کی ضربوں کی تعداد سے، جو ٹھہر ٹھہر کرلگائی جاتی تھیں، پتا چلتا تھا کہ کون سا پیریڈ ختم ہوا ہے یا کون سا پیریڈ شروع ہوگا۔
مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ اس کی وہی آواز اچھی لگتی تھی جو بغیر کسی ٹھہراؤ کے مسلسل ‘ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ‘ کی صورت آتی تھی اور ہم خوشی سے نہال ہوجاتے تھے۔ دھاتی توے پر ہتھوڑا مارنے کی سعادت کبھی پہاپا (بھائی) ظفراور کبھی پہاپا(بھائی) اشفاق کے حصے میں آتی، جو درجہ چہارم کے ملازم تھے۔
اپنے اسکول کی سب سے حسین یادوں میں سے ایک یاد اُن اساتذہ کی ہے، جن کی باتیں اور واقعات جب بھی اپنے بچوں کو سناتا ہوں تو وہ حیرت سے مجھے یوں دیکھتے ہیں، جیسےیہ کسی اور ہی دنیا کی باتیں ہوں۔ ماسٹر نیازی، ماسٹر خدمت دار، ماسٹر اسلم، ماسٹر یعقوب، ماسٹر محبوب، ماسٹر رضوی، ماسٹر انوارالحق، ماسٹر فضلِ غنی، ماسٹر نثار، ماسٹر اعجاز شاہ، ماسٹر اشرف، حافظ منیر صاحب، ماسٹر زاہد، ماسٹرعبد الحق اور انجم عقیل خان جیسےپرخلوص اور بے لوث اساتذہ آج ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، جن کا غصہ، جن کا پیار اور جن کا خلوص سچا اور سُچاتھا۔ جو حقیقی معنوں میں ہمیں اپنے بچوں کی طرح چاہتے تھے اوراسی لیے تعلیم کے ساتھ ہماری تربیت کی ذمہ داری بھی انھوں نے اپنے ذمے لے رکھی تھی۔
مجھے نہیں یاد کہ کبھی ان اساتذہ نے یا ہمارے ہیڈماسٹرصاحب نےکسی لڑکے کے والد یا سرپرست کو اسکو ل بلوایا ہو اور اس کی شکایت کی ہو۔ ہمارے استاد انجم عقیل خان صاحب 2008 ء کے انتخابات میں حلقہ این اے 48 سے، مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ نویں اور دسویں میں ہم نے ان سے ریاضی اور طبیعات جیسے خشک مضامین پڑھے۔
ہمارے ہیڈماسٹر شیخ ظہورالدین طلبا میں ذوق مطالعہ پیدا کرنے کے لیے ہمیں کتابیں اور رسالے پڑھنے کے لیے دیا کرتے تھے۔ میری مطالعے کی عادت انھی کی مرہون منت ہے، جب کہ عباس العزم صاحب(جو شیخ ظہور صاحب کے بعد ہیڈ ماسٹر بنے) خود بچوں کے بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کی نظمیں بچوں کے مختلف رسائل میں چھپتی تھیں۔ انھوں نے اپنی نظموں کا مجموعہ”سنگ سنگ ہم چلیں”بڑی محبت سے مجھے عنایت کیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ انھیں دیکھ کراور ان کی نظمیں پڑھ کر مجھے لکھنے کی تحریک ملی۔
میں نویں جماعت میں تھا جب میری پہلی تحریر ماہنامہ نونہال میں چھپی۔ جب میرے اسکول کے پتے پر رسالہ، انعامی کتاب اور حکیم محمد سعید صاحب کا خط موسول ہواتو مجھ سے زیادہ خوش عباس صاحب تھے۔ اگلے روز انھوں نے اسمبلی میں مجھے وہ تحفے دیے اورایک تقریر کی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ نے آپ سب کو بہت سی صلاحیتیں دے رکھی ہیں، انھیں پہچانیں اورمحنت کریں۔
ماسٹرنیازی، ماسٹر اشرف اور ماسٹر یعقوب صاحب کی رہائش اسکول کے قریب تھی۔ جب ہمارے سالانہ امتحانات نزدیک آتےتو یہ تینوں مردانِ باصفا، سبھی طلبا کے لیے بالعموم اور پڑھائی میں کمزور طلبا کے بالخصوص یہ فرمان جاری کرتے کہ وہ اپنے ساتھ کھانے کے لیےانڈا پراٹھایااچار پراٹھا ضرور لائیں، اور گھر بھی بتا کر آئیں کیوں کہ چھٹی کے بعد بھی پڑھائی جاری رہے گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس اضافی پڑھائی کی کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی۔ یہ پڑھائی بسا اوقات دو، دومہینوں تک جاری رہتی اور ہمارے استاد بلاناغہ، بغیر کسی لالچ کے اور صرف ہمارے بھلے کے لیے یہ اضافی بوجھ خوشی خوشی اٹھایا کرتے تھے۔
ماسٹر فضلِ غنی صاحب پٹھان تھے، ان کا قد چھوٹا ، لیکن رعب بڑا تھا۔ شلوار، قمیص، واسکٹ اور جناح کیپ میں ملبوس، چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی اور لسی کے دلدادہ استاد محترم کا تکیہ کلام”چھچھوندر کے بچے”تھا۔ ان کا سزا دینے کا انداز بھی سب سے نرالا تھا۔ وہ پسلیوں کے نیچے اتنے زور کی چٹکی کاٹا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کے تمام طلبا ان کی چٹکیوں سے بچنے کے لیےمطالعہ پاکستان کے اسباق جس لگن سے یاد کرتے تھے، اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔
ہم غالباً چھٹی یا ساتویں میں تھے جب ماسٹر فضلِ غنی صاحب کی تعیناتی ہمارے اسکول میں ہوئی۔ تفریح کے بعد جب ماسٹر صاحب مطالعہ پاکستان پڑھانے پہلی دفعہ ہماری جماعت میں آئے تو ہمارے ایک، مسکراتے چہرے (سمائلنگ فیس) والے ہم جماعت اعجاز یا طاہر (نام ٹھیک سے یاد نہیں ) ان کی اولین چٹکیانہ سزا کا نشانہ بنے۔ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ان کا قد چھوٹا تھا، ماسٹر صاحب جیسے ہی جماعت میں داخل ہوئے، ہم سب احتراماً کھڑے ہوئے، انھوں نے بیٹھنے کو کہا مگر ان کی نظریں مسلسل ہمارے اسی ہم جماعت پر تھیں۔ ماسٹر صاحب یہ سمجھے کہ وہ ان کے چھوٹے قد کو دیکھ کر مسکرارہا ہے۔
‘چھچھوندر کے بچے ادھر آ ؤ’
ماسٹر صاحب کی رعب دار آواز سن کر جیسے ہی وہ لڑکا ڈرتے ڈرتے ان کے قریب پہنچا، ماسٹر صاحب کے انگوٹھے اور انگشت شہادت کے درمیان پھنسے، اس کی پسلیوں کے نیچےوالے گوشت کی رنگت یقیناً تبدیل ہوئی ہوگی کیوں کہ اس کے چہرے کی رنگت تبدیل ہو چکی تھی اور اس کے منہ سے ‘ہائے، اوئے’ کی شہادت باقی سبھی لڑکوں کے لیے ایک پیغام تھا کہ’احتیاط ہی بہترین حکمت عملی ہے’۔
‘چھچھوندر کے بچے مجھے دیکھ کر ہنستے ہو، جا ؤ، بیٹھ جاؤ’
لڑکے کی جان میں جان آئی، مگر جیسے ہی وہ اپنی نشست پر جاکر بیٹھا، ماسٹر صاحب نے دوبارہ بلا لیا۔
‘چھچھوندر کے بچے شرم نہیں آتی، پھر مسکرا رہے ہو’، اس سے پہلے کہ ان کے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا اور انگشت شہادت حرکت میں آتی، ہمارے ہم جماعت افضال نے، جسے ہم سب “نِکو”کہتے تھے، یہ کہہ کر اس کی جان چھڑوائی
‘ماسٹرجی!اسے نہ ماریں اس کا منہ ہی ایسا ہے’
‘اوہو!تو پہلے بتانا تھا نایاراکہ تم سمائلنگ فیس ہو’۔ ان کے چہرے پر پہلی مرتبہ مسکراہٹ نظر آئی تو سب کی جان میں جان آئی۔
نہ وہ استاد رہے نہ شاگرد۔ ‘ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں’ حقیقت ہی سہی مگر تعلیم کے شعبے میں آنے والی (کاروباری)تبدیلیوں نے جیسے سب کچھ بدل ڈالا ہے۔ آج عالمی یوم اساتذہ پر میں اپنے تمام اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سےان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں انھی کی بدولت ہوں اور ہمیشہ ان کی محبت اور ان کے خلوص کا مقروض ہوں اور رہوں گا۔ اپنے اساتذہ کی نذر جناب احمد حاطب صدیقی کی شہرہ آفاق نظم۔ ۔
اے دوستو ملیں تو بس اک پیام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا
کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ مجھے سکھایا
ان پڑھ تھا اور جاہل، قابل مجھے بنایا
دنیا ئے علم و دانش کا راستہ دکھایا
اے دوستو ملیں تو بس ایک پیام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا
مجھ کو خبر نہیں تھی آیاہوں میں کہاں سے
ماں باپ اس زمیں پر لائے تھے آسمان سے
پہنچا دیافلک تک استاد نے یہاں سے
واقف نہ تھا ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے
استاد محترم کو میرا سلام کہنا
جینے کا فن سکھایا، مرنے کا بانکپن بھی
عزت کے گر بتائے، رسوائی کے چلن بھی
کانٹے بھی راہ میں ہیں، پھولوں کی انجمن بھی
تم فخر قوم بننا اور نازش وطن بھی
ہے یاد مجھ کو ان کا اک اک کلام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا
جو علم کا علم (جھنڈا)ہے استاد کی عطا ہے
ہاتھوں میں جو قلم ہے استاد کی عطا ہے
جو فکر تازہ دم ہے استاد کی عطا ہے
جو کچھ کیا رقم ہے استاد کی عطا ہے
ان کی عطا سے چمکا حاطب کا نام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا