اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریٹائرمنٹ کے بعد قانونی رکاوٹ توڑنے اور مختلف واقعات کو غلط اور من گھڑت طریقے سے بیان کرنے کے الزام کے مقدمہ میں سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ، سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، صحافی جاوید چوہدری اور شاہد میتلا، پیمرا اور پریس ایسوسی ایشن آف پاکستان کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
مزید پڑھیں
وی نیوز نے دفاعی تجزیہ کاروں اور قانونی ماہرین سے رائے لی کہ کیا ہائیکورٹ ایک عام شہری کی درخواست میں سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو طلب کر سکتی ہے۔
سابق جنرلز کی عدالت میں حاضری سے عدل و انصاف پر اعتماد بحال ہوگا، حسن رضا
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو نوٹس جاری کرنے کے عمل کو خوش آئند سمجھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس سے لوگوں کا عدل و انصاف پر اعتماد بحال ہوگا۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سے عام شہری کی حیثیت سے کسی بھی معاملے پر جواب طلب کیا جا سکتا ہے، فوج کے خلاف یا فوج کی ساکھ متاثر کرنے کے لیے اگر کوئی بھی کارروائی کرے تو اس کے خلاف بھرپور ایکشن ہوتا ہے۔
فوجی افسران سے عدالتی کا جواب طلب کرنا کوئی بڑی بات نہیں
انہوں نے بتایا کہ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا کہ فوج کی ساکھ متاثر کرنے والوں کے خلاف شدید کارروائیاں کی گئیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا لیکن اگر فوج کے اعلیٰ افسران فوج کی ساکھ متاثر کرتے ہیں تو ان سے جواب طلب کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایپیکس کورٹ ہے، اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کو نوٹس جاری کیے ہیں تو جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو چاہیے کہ وہ اس نوٹس کا جواب دیں اور اگر ہائی کورٹ سمجھتی ہے کہ ان دونوں کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنا ہے تو دونوں کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر جواب دینا چاہیے۔
دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی نے کہا کہ کسی کو عدالت کا نوٹس جاری ہونا کوئی برائی نہیں ہے، یہ پاکستان میں ایک نیا واقعہ ہوا ہے کہ سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس جاری کیے ہیں۔
صحافیوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مقدمہ آگے چلتا ہے یا نہیں؟ لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ سب کو ایک موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے حق میں بیان دے سکیں اور واضح کریں کہ جو رپورٹ ہوا ہے وہ درست ہے یا نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے نوٹس جاری ہونے پر صحافیوں کو تھوڑی مشکل ہو سکتی ہے۔
جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی نے کہا ہے کہ ہمارے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ ہم ایسے کاموں میں پڑ جائیں، ہمیں اصل وقت تو ان چیزوں کو دینا چاہیے کہ جیسے معیشت ہمارا بڑا مسئلہ ہے، سیاسی مسائل کو عدالتوں میں نہیں جانا چاہیے، میرا خیال ہے کہ عدالتوں میں ایسی باتیں ہونی چاہییں جیسے انتخابات وقت پر ہوں، انتخابات شفاف ہونے چاہییں، کسی سیاسی جماعت کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے، لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اب ایک عام شہری ہیں اور قانون کے تابع ہیں۔
عدالت نے نوٹس جاری کیے ہیں تو قمر باجوہ اور فیض حمید کو حاضر ہونا چاہیے، نعیم لودھی
اگر عدالت نے ان کو کسی بھی معاملے میں طلب کیا ہے یا نوٹس جاری کیے ہیں تو ان کو پیش ہونا چاہیے یا اپنے وکیل کے ذریعے جواب جمع کرانا چاہیے، عدالت میں یہ لوگ اپنے وکیل کے ذریعے مؤقف بیان کر سکتے ہیں، جیسے اس وقت میرے اور آپ سمیت تمام شہری عدالتوں کو جواب دے ہیں، اسی طرح یہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ بھی عدالتوں کو جواب دہ ہیں۔
مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ اگر ایک شہری نے آرمی کی ساکھ متاثر ہونے کا معاملہ عدالت میں اٹھایا ہے تو اب عدالت ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ کیا واقعی اس انٹرویو سے آرمی کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تو فوج کی ساکھ متاثر کرنے میں جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور جنرل ریٹائرڈ قمرباجوہ کا کیا کردار ہے اس کا تعین بھی عدالت ہی نے کرنا ہے۔
عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس انٹرویو میں جو باتیں جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سے منسوب ہیں، کیا حقیقت میں یہ باتیں انہوں نے کہی ہیں، ان سب باتوں کا جواب خود جنرل ریٹائرڈ قمر باجوہ اور جنرل ر فیض حمید دے سکتے ہیں۔