سابق سفیر اور افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند نے 15 لاکھ افغان باشندوں کی مختصر عرصے میں بیدخلی کو ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں رہائش پذیر افغانوں کو زبردستی واپس بھیجنے کے فیصلے کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے اور یہ ایک ایسا بیج ثابت ہوگا جو دونوں ممالک کے بیچ نفرت اگائے گا۔
پشاور میں وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رستم شاہ مہمند نے کہا کہ مشکل حالات میں پاکستان میں رہائش پذیر افراد کو واپس کرنے سے نفرت جنم لے گی اور دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔
رستم شاہ مہمند نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افراد کو 31 اکتوبر تک واپس جانے کے حکم کو جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں رہائش پذیر افغان اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے افغان حکومت بھی خوش نہیں ہے جس کی وجہ سے سفارتی لحاظ سے بھی منفی اثر پڑے گا اور دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رضاکارانہ واپسی کے لیے ایک ماہ کا وقت کم ہے لہٰذا اس کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
’افغانستان میں حالات سازگار نہیں اس لیے افغان واپس جانا نہیں چاہتے‘
رستم شاہ مہمند نے بتایا کہ جنگ زدہ افغانستان میں حالات بدستور خراب ہیں، گو طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد امن بحال ہوا ہے لیکن اب بھی معاشی مسائل کا سامنا ہے اور روزگار و کاروبار کے مواقع نہیں ہیں جبکہ غربت کا بھی دور دورہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے حالات سے تنگ آکر افغانوں نے بہتر مستقبل کے لیے پاکستان کا رخ کیا اور وہ فی الحال واپس جانے کے خواہشمند نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانوں کو زبردستی واپس بھیجنا مناسب نہیں ہے اس لیے افغانستان میں حالات سازگار بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ پھر افغان خود ہی واپس چلے جائیں۔
’بجلی اور گیس کے منصوبوں پر بھی اثر پڑے گا‘
رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ افغانوں کو زبردستی واپس بھیجنے سے تعلقات خراب ہوں گے اور اس سے تجارت اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر بھی اثر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تاجکستان بجلی اور ایران گیس منصوبے پر بھی اثر پڑے گا کیونکہ ان میں افغانستان بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت افغانوں کے ساتھ زبردستی کرے گی تو افغان حکومت ناراض ہوجائے گی اور وہ بھی پھر پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کو سپورٹ کرنے اور معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب چین اور دیگر ممالک افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ہم دوسری سمت میں نکل پڑے ہیں۔
’افغان حکومت 15 لاکھ باشندوں کو آباد نہیں کر سکتی ہے‘
ماہر افغان امور نے بتایا کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت مشکلات سے دوچار ہے اور اس سے بیشتر ممالک تعاون نہیں کر رہے جبکہ امریکا بھی افغانستان کے پیسے نہیں دے رہا ہے اب ان حالات میں اتنی بڑی تعداد میں افغانوں کی واپسی افغان حکومت کے لیے مزید مسائل پیدا کر دے گی۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت 15 لاکھ افراد کو جلد آباد نہیں کر سکتی کیوں کہ اس کے لیے اس کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتی کہ پاکستان سے اتنی بڑی تعداد میں افراد کو وہاں واپس بھیج دیا جائے۔
’اتنی بڑی تعداد میں مقیم افغانوں کو بیدخل کرنا پاکستان کے لیے بھی بڑا چیلنج ہے‘
رستم شاہ مہمند کے مطابق پاکستان میں مقیم افغانوں کو بیدخل کرنا آسان نہیں ہے کیوں کہ اس کے لیے وسائل درکار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ زبردستی واپس بھیجنے کے لیے کریک ڈاؤن کیا گیا تو خواتین، بچے اور عمر رسیدہ افراد بھی متاثر ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی کارروائیوں میں قانونی طور پر مقیم افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔
’ٹی ٹی پی افغان طالبان کے کنٹرول میں نہیں ہے‘
رستم شاہ سے جب سوال کیا گیا کہ کیا افغان طالبان ٹی ٹی پی کو کنڑول کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے ایجنڈے الگ ہیں اور افغان طالبان نہیں چاہتے کہ ان کا نام اور ملک بدنام ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی کے ارکان افغانستان میں موجود ضرور ہیں لیکن افغان طالبان کے زیر سایہ نہیں ہیں۔