مجھے حساب سمجھ میں نہیں آتا۔ آج تک زندگی میں جتنی بار بھی حساب کا پرچہ ہوا، سب کچھ تیار کرنے کے باوجود بھی، مجھے حساب کا پرچہ ہمیشہ آؤٹ آف سلیبس ہی لگا۔ اسکول میں 10 سال کے دوران جتنی بار ٹیسٹ یا امتحان ہوا، حساب کا پرچہ دیکھتے ہی میرے دماغ میں ایک ہی خیال آتا تھا، ’یہ تو کتاب میں نہیں تھا، یہ سوال کدھر سے آیا ‘ ۔ بات یہ ہے کہ سوال تھا، اسی کتاب میں تھا لیکن اس کو حَل کرنا میرے بس میں نہیں تھا۔ یہی کچھ حال پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا ہے جو کچھ بھی کر لے، بھارت کے خلاف میچ ہمیشہ آؤٹ آف سلیبس ہی رہے گا چاہے جتنی بھی تیاری کر لو۔
یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ بھارت کے خلاف ہار اب ہم سے پناہ مانگتی ہے۔ ہار اب گڑگڑا رہی ہے کہ آخر پاکستان اسے کب آزاد کرے گا؟ جہاں دنیا کے بہت سے ملک آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہاں ’ہار‘ بذات خود پاکستان سے الگ ہونے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ ورلڈکپ میں بھارت کے خلاف ہماری آٹھویں ہار ہے۔ ورلڈکپ کے شیڈول میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوتا ہے کہ ’ پاکستان بمقابلہ بھارت اور ہار اِس تاریخ کو ہوگی‘۔ لیکن ہم نے شاید سمجھ لیا ہے کہ بھارت کے ساتھ ایک ہار مفت میں حاصل کریں۔
جہاں تک میری یاد داشت کام کرتی ہے تو مجھے پہلی بار 1996 کے ورلڈکپ میں بنگلور کے کوارٹر فائنل میں بھارت سے ہار کر لفظ ’غم‘ سے تعارف ہوا تھا۔ وہ 1996 کی ہار اور اب 2023 کے ورلڈْکپ میں ہار، یہ جنم جنم کا ساتھ ایک امرپریم کہانی بن چکا ہے۔ ہیررانجھا، رومیو جولیٹ اور سسی پُنو کی لازوال محبت کے بعد، پیش خدمت ہے پاکستان کی ہار سے وہ عشق لازوال جو ہمیشہ بھارت کے خلاف ہی شدت اختیار کرتا ہے۔
اب میں کیا بولوں۔ آپ سب جانتے ہیں۔ ہم نے بیٹنگ کچھ بھی سوچے بغیر کی۔ اِس دنیا میں صرف 2 چیزوں پر پریشر ہوتا ہے۔ ایک پریشر کُکر اور دوسرا ہماری ٹیم پر۔ میں یہ بتاتی چلوں کہ آج کل پاکستان میں نہ گیس کا پریشر صحیح ہے اور نہ ہی پانی کا۔ لیکن بھارت کے خلاف پریشر ہمیشہ ایک سا ہی رہا ہے اور بھرپور رہا ہے۔ ہم ایک وقت پر 155 کے اسکور پر 2 آؤٹ تھے اور دوسرے ہی لمحے 191 پر ہماری پوری ٹیم آؤٹ ہو گئی تھی۔ مجھے یہاں بہت فخریہ طور پر کہنا ہو گا کی اتنی جلدی تو ہماری حکومت نہیں بدلتی۔ جس وکٹ پر 300 ہو سکتے تھے، اس پر ہم نے 200 بھی نہیں کیے اور 300 نہ کرنے والی ٹیم کو پاکستان کہتے ہیں۔
جب ہماری بولنگ شروع ہوئی تو میں کچھ دیر کے لیے سو گئی۔ جب میں جاگی، تو میرے ایک بہت عزیز دوست نے میسیج کر کے پوچھا ہوا تھا،’تمہیں کیا لگتا ہے‘۔ میں نے جواب میں کہا کہ مجھے بخار لگتا ہے کیوں کہ نہ صرف یہ میچ، بلکہ ہماری بیٹنگ کے بعد ہماری بولنگ بھی سلیبس سے باہر ہی تھی۔