غزہ اسپتال میں بمباری سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس کے بعد اردن کے شاہ عبداللہ نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات منسوخ کردی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس واقعہ کو ہولناک قرار دیا ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس کی مذمت کے علاوہ 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی فوجی ترجمان ان ہلاکتوں کو اسلامک جہاد کے ایک ناکام میزائل حملے سے جوڑتے رہے۔
اسرائیلی میڈیا پر نظر ڈالیں تو وہاں جاری صورتحال کو اسرائیل حماس جنگ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اسے اسرائیل فلسطین تنازعہ کہنے سے ہر ممکن گریز کیا جارہا ہے۔ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم بتا کر اس کی اسرائیل کے خلاف کارروائی کو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے۔
ہمارے خطے میں صورتحال دلچسپ ہے۔ پاکستان، چین اور انڈیا ایک ہی قسم کا نرم ردعمل دے رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا سے حماس نے اپنا ورژن دینے کے لیے رابطے کیے تو اسرائیلی ورژن پاکستان تک پہنچانے کی بھی خاصی کوشش ہوئی۔ پاکستان کے حوالے سے اسرائیلی بہت محتاط رہتے ہیں۔ پاکستان کو اگر دنیا میں کوئی بطور ایٹمی فوجی طاقت ڈیل یا محسوس کرتا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ پاکستان اسرائیل کو بھولا رہے، کسی فورم پر دونوں ملک کسی براہ راست تنازعہ میں آمنے سامنے آتے نہ دکھائی دیں اور ایک دوسرے کو نظر انداز کریں، اسرائیلی اس کی باقاعدہ کوشش کرتے ہیں۔
اگر ایک اور زاویہ سے دیکھیں تو اسرائیل کی اسلامی شدت پسند مسلح گروہوں سے نمٹنے کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اسرائیل نے کشمیر میں عسکری تحریک کے حوالے سے انڈیا کے ساتھ تعاون کیا۔ چین کے مسلمان صوبے سنکیانگ میں مسلح تحریک کے خلاف بھی اسرائیل چین میں تعاون ہوتا رہا جو کہ انٹرنیشنل میڈیا بھی رپورٹ کر چکا ہے۔ انڈیا اور چین کے ڈھیلے ڈھالے بیانات اس تناظر میں سمجھ آتے ہیں۔
دہشت گرد شدت پسند تنظیموں سے پاکستان بھی ایک لمبے عرصے سے نبرد آزما ہے۔ افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے اسرائیل حماس تنازعے پر بیان کے پہلے جملے پر غور کریں کہ ہم کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ اس کے بعد حقانی کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ظلم کو روکے۔ یہ سب دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہمارے خطے میں اس تنازعہ سے بچنے اور دور رہنے کی بہت کوشش ہو رہی ہے۔
کوئی چھوٹی سی بات کیسے تنازعہ کو بڑھا سکتی ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ سری لنکا سے میچ جیت کر محمد رضوان نے اپنی ٹویٹ میں اس جیت کو غزہ میں اپنے بھائی بہنوں کے نام کردیا جسے انڈین سوشل میڈیا اور میڈیا نے استعمال کیا۔ جب پاکستان کو انڈیا سے ورلڈ کپ میچ میں شکست ہوئی تو اسرائیل کے کئی آفیشل ہینڈلز سے اس جیت پر انڈیا کو مبارک باد دی گئی۔
مبارک باد کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اگر میچ جیت جاتا تو اس کو حماس کے نام کر دیتا۔ نصرت جاوید نے اسرائیلی آفیشل اکاؤنٹ پر مبارک باد کے اس انداز پر ایک کالم بھی لکھا ہے۔ ان کے کالم میں محمد رضوان کی ٹویٹ کا ذکر نہیں ہے، شائد ان کی نظر سے نہ گزری ہو جس کی وجہ سے یہ ردعمل آیا۔
ایف بی آئی نے 17 اکتوبر کو فائیو آئی کے ایک اجلاس کی میزبانی کی ہے۔ فائیو آئی کینیڈا، امریکا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور برطانیہ کا انٹیلی جنس اتحاد ہے۔ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی فائیو کے ڈائریکٹر جنرل کین مکیلم نے اس اجلاس کے بعد رپورٹروں سے بات چیت کی۔
مکیلم کا کہنا تھا کہ ہم صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی وجہ سے برطانیہ میں تھریٹ لیول بہت بڑھ گیا ہے۔ شدت پسند اپنی کارروائیوں کے لیے محرکات اس سب کو بھی بناتے ہیں جو کچھ وہ دیکھتے ہیں۔ ہم ایک لمبے عرصے سے ایران کے حوالے سے برطانیہ میں صورتحال کو لیکر الرٹ تھے۔ اب یہ نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ یہ تو برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی کا ہیڈ کہہ رہا ہے۔
بات صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ پورے یورپ میں صورتحال الارمنگ ہے۔ فرانس میں پچھلے ایک سال میں نسلی و مذہبی تعصبات کے جو واقعات رپورٹ ہوئے، ان میں سے 55 فیصد یہودیوں کے خلاف تھے۔ یورپ میں یہودیوں کے لیے سیکیورٹی اقدامات میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
پاکستان، ایران، افغانستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد یورپ میں مقیم ہیں۔ شدت پسند جذبات ہمارے خطے میں بہت گہرے ہیں۔ ایران کا تو براہ راست اسرائیل کے ساتھ مستقل میچ لگا ہوا ہے۔ باقی ملک اگر اس صورتحال میں محتاط بیان نہ دیں تو کیا کریں؟ ایک چنگاری پورے خطے کو آتشی گلابی کرسکتی ہے۔ اس لیے اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہر ایک کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔