مسلمانوں کے پاس صرف بد دعائیں ہیں؟

جمعہ 20 اکتوبر 2023
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

صدام حسین کی طرف سے کویت پر چڑھائی کے بعد جس وقت امریکہ کی قیادت میں دنیا نے عراق پر حملہ کردیا تو پاکستان میں شدید احتجاج شروع ہوئے تھے۔سکول کے زمانے کےوہ دن اچھی طرح یاد ہے جب صدام حسین کے پوسٹرز کو بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ دیکھتے رہتے جن پر سنہرےالفاظ میں لکھا ہوتا نصر من اللہ و فتح قریب اور اسلامی جذبے سے سرشار ماحول میں مجھے اس بات کا یقین تھا کہ صدام حسین دنیا کے تمام کافروں کو شکست دے دیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ تاریخ نے ثابت کیا کہ صدام حسین اصل میں امریکی حمایت یافتہ حکمران تھے اور مبصرین یہاں تک کہتے رہے ہیں کہ صدام حسین نے امریکہ کے کہنے پر ہی کویت پر حملہ کیا تھا۔

ہمارے شہر میں عراق کی حمایت میں نکلی ریلی کے دوران جلوس میں شریک چند افراد نے راستے میں دوسرے فرقوں کی مساجد پر پتھر پھینکا شروع کر دئیے۔ معاملہ صدر بش کے خلاف بد دعاؤں سے ہوتا ہوا مخالف فرقے پر پہنچ کر دم توڑ گیا۔

حماس کے اسرائیل پر حملوں کے بعد اس وقت فلسطین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسی وجہ سے زندگی کے تلخ تجربات ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چل رہےہیں۔ مسلمانوں کے موجودہ معاشرے میں ہمیں کمزور مسلمان ہونے کا طعنہ ملتا ہے۔ اس کا اندازہ تب زیادہ ہوتا ہے جب سوشل میڈیا پر ہمارے خیالات و نظریات پر کڑی تنقید پڑھنے کو ملتی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمیں جنگی بنیادوں پر وہی سائنس سیکھنا ہوگی جن کی مدد سے ترقی یافتہ ممالک پوری دنیا پر قابض ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے علم کو صرف زندگی گزارنے کے معاملات تک محدود کررکھا ہے۔ اگر کوئی اس سے آگے کی بات بھی کرے تو ایمان سمیت زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

ہمارے مسلمان بھائی اس بات کا رونا روتے ہیں کہ کافر یا عالمی طاقتیں ہمارے وسائل پر قابض ہیں ہمارے ملکپر کٹھ پتلیاں بٹھا رکھی ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی کوشش کی کہ ہم دنیا سے اپنا گریبان چھڑوا سکیں۔

جہاں تک قبضوں کی بات ہے تو بطورِ مسلمان اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ جس وقت سائنس نہیں تھی تب مسلمان فاتحین نے بھی دنیا پر حملے کیے اور کئی ممالک پر قبضے بھی کیے تھے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی سربلندی کے لئے تھا تو اس وقت جب ترقی یافتہ دنیا کے پاس طاقت ہے تو ان کی جنگ میں بھی مذہبی جذبات کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

بے شک ان کا نعرہ عیسائیت یا یہودیت کا نہیں ہوگا مگر اگر آپ ان طاقتوں پر نظر ڈالیں گے جو ان جنگوں سے کسی نا کسی طرح منسلک ہیں تو آپ کی سوچ بھی اس حوالے سے بدل سکتی ہے اور اس وقت ان مہذب ممالک میں اسرائیل کے خلاف عوامی احتجاج کی حوصلہ شکنی بھی ہمیں اس حوالے سے سوچنے کی دعوت دیتی ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا جہاں کے انسانوں کے پاس مذہب ہے اور ہر کسی کو اپنا مذہب سچا لگتا ہے اور مذہب سے ہی اپنے مقاصد کے لیے تقویت پاتے ہیں۔

اس وقت افغانستان ہمارے سامنے مسلمان ریاستوں اور سوچ کا وہ ماڈل ہے جس کو ہم براہ راست دیکھ رہےہیں اور اس بات کا تعین بھی کر سکتے ہیں کہ کیا اسلام کے ساتھ وہ چیزیں ضروری نہیں جو آج پوری دنیا کی ضرورت ہیں۔ کیا سائنس کے بغیر کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے۔ یہ مثال ضرور دی جاتی ہے کہ افغانستان میں پوری دنیا کی طاقتوں کو شکست دی گئی وغیرہ لیکن کوئی اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اگر افغانستان علمی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ،سیاسی طور سے آج کی دنیا کے ہم پلّہ ہوتا تو کوئی حملہ کرنے کا سوچ سکتا تھا ؟

اسی طرح افغانستان میں سالوں کی لڑائی میں لاکھوں افراد مارے گئے جن میں بچوں سمیت عورتوں کی بھی بہت بڑی تعداد تھی۔ اب اگر موجودہ سسٹم پر غور کریں تو ان کو اس وقت دنیا کی طرف سے سب سے پہلے ضرورت تسلیم کرنے کی ہے لیکن اتنا عرصہ گزرا کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ چین جیسا ملک جس کی اس وقت افغانستان کے قدرتی ذخائر پر سب سے بڑی نظر ہے وہ بھی افغانستان کو تسلیم کرنے کا رسک نہیں لے رہا کیوں؟ حالیہ مہینوں میں افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہے کہ افغانستان میں غیر قانونی طور ڈرون اڑائے جارہے ہیں اور سوائے مذمت کے افغان عبوری حکومت کے پاس کوئی ایسا آپشن نہیں ہے کہ وہ اپنی فضاؤں کی حفاظت کر سکے اور اگر افغانستان بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں خودکفیل ہوتا تو کیا کوئی ڈرون افغانستان میں آسکتا تھا؟

سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا کی طرف سے تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ موجودہ افغان عبوری حکومت کے سر پر خطرے کا تلوار لٹکتا رہے گا اور جیسے ہی عالمی طاقتوں کو کسی نئے معرکے کی ضرورت پڑتی ہے تو پہلی نظر افغانستان پر ہی پڑتی ہے۔اگر کوئی کہتا ہے کہ اسلامی حکومت کو کسی کے تسلیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تو وہ غلط ہے اور اگر غلط نہ ہوتے تو افغان عبوری حکومت کے ذمہ داران اس حوالے سے اس قدر کوشش کیوں کرتے ؟

اسی سلسلے کو دیگر مسلم ممالک تک پھیلا کر سوچتے ہیں کہ اس وقت افریقہ کے وہ مسلمان ممالک جہاں اربوں روپوں کے قدرتی خزانے موجود ہیں وہاں اس قدر حالات کیوں خراب ہیں ؟ یقیناً ہم یہی سوچتے ہیں کہ یہ سب عالمی طاقتوں کی سازش ہے جو کہ کہنا اور سوچنا درست بھی ہے لیکن وہ ان سازشوں میں کامیاب کیوں ہورہےہیں ؟

مسلمان اس پوزیشن میں کیوں نہیں کہ وہ ان کے ہاں ایسی کوئی سازش کر سکے یا پھر ان کو منع ہی کر سکے ؟ بالکل سادہ جواب ہے کہ مسلمان معاشرہ بطورِ مجموعی جہالت میں پڑا ہوا ہے اور اس سے نکلنے کی بات کرنے والوں کو بھی دفاعی پوزیشن پر رہنا پڑتا ہے۔

اس وقت تمام مسلمان اسرائیل امریکہ اور کافروں کو بدعائیں دے رہےہیں، شدید مذمت بھی کررہے ہیں لیکن دیکھا جائے تو کوئی بھی اسلامی ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اس جارحیت کو روکنے کی عملی طاقت رکھتا ہو۔ ایران اس حوالے سے جارحانہ ڈپلومیسی کررہاہے لیکن ایران اپنے خود کے اٹامک پاور پلانٹس کو نہیں بچا پاتا۔

میرا بنیادی مدعا یہ ہے کہ بطورِ مسلمان ہمیں ہنگامی بنیادوں پر پہلے کافروں سے ان کا علم و ہنر سیکھنا چاہیے کہ جس طرح وہ واشنگٹن میں بٹن دباکر کابل یا وزیرستان میں ہمیں ہٹ کر سکتا ہے ہم کم از کم ایسی پوزیشن پر تو آسکیں کہ ہم ہزاروں میل دور اپنی حفاظت کر سکے اور عالمی طاقتوں کو اس بات سے روک سکیں کہ مسلمان آسان ٹارگٹ نہیں ہیں۔ اس کے لیے آپ کو وہی علم سیکھنا ہے جو کافروں کے پاس ہے وہی سائنس سیکھنی ہے جس کا ہم بطورِ مسلمان یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ سب چیزیں غیر مسلموں نے ہم سے سیکھی ہیں۔ جب تک مسلمان بطورِ معاشرہ اس طرف نہیں سوچیں گے یوں مغلوب ہی رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

عالمی مقابلہ حسن سے واک آؤٹ کرنے والی فاطمہ بوش مس یونیورس 2025 کا تاج لے اڑیں

لاہور  سے مختلف سیاسی رہنماؤں نے استحکامِ پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی

وفاقی آئینی عدالت میں سائلین کے لیے انفارمیشن اور آئینی ڈیسک قائم

صوبہ سندھ کے ضلع مٹیاری میں آج عام تعطیل کا اعلان

اسکولوں میں بچوں کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟