ایک جان پہچان کے بزرگ اکثر اپنے بچپن اور جوانی میں گزرے تنگ دستی اور کسمپرسی کے حالات کا تذکرہ کرتے آبدیدہ ہو جایا کرتے ہیں۔ آج ماشااللّہ ایک بڑے کاروبار کے مالک ہیں اور ان کے ماتحت ملازمین کی حالتِ زار ایسی ہی ہے جیسی کبھی وہ خود سہہ چکے ہیں۔ خلاف توقع ان کا اپنے ملازمین کے ساتھ رویہ نا صرف ہتک آمیز ہے بلکہ ظالمانہ بھی ہے۔
یہ تو ایک انفرادی مثال ہے ورنہ قومیں اور ریاستیں بھی اسی طرز عمل کو اپنائے ہوئے ہیں جس کی واضح مثال اسرائیل کی ہے۔
یہودی قوم نے تاریخ کی بدترین نسل کشی اور قتل عام سہا ہے۔ توقع تو یہی کی جاتی ہے کہ جو کبھی مظلوم رہا ہو تو وہ کسی اور پر ظلم روا نہ رکھے گا۔ لیکن اسرائیل نے اس تاثر اور سوچ کی مکمل نفی کرتے ہوئے ان 7 دہائیوں میں فلسطین کے خلاف ایسے بہیمانہ اقدامات کیے ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ انسان سے زیادہ ظالم مخلوق اس خطہ ارض پر موجود نہیں ۔
یروشلم 3 مذاہب کے لیے مقدس سرزمین کا درجہ رکھتا ہے۔ جن میں یہودیت، مسیحیت اور اسلام شامل ہیں۔
مغرب میں مسیحیت کے فروغ کے بعد یہودیوں کے خلاف ایک محسوس اور غیر محسوس طریقے سے نفرت اور حقارت موجود تھی۔ کیونکہ مسیحی یہودیوں کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کا مجرم بھی۔ کسی بھی خطے پر آفت، وبا یا کساد بازاری کی صورت میں یہودیوں کو ہی ذمہ دار قرار دے کر ملک بدر کر دیا جاتا۔
1971 کی فلم ’فڈلر آن دی روف‘ بیسویں صدی کے اوائل میں روسی سلطنت کے ہاتھوں یوکرین میں یہودیوں کے ساتھ ہونے والے ایسے سلوک کی منظر کشی کرتی ہے۔
سنہ 1880 سے یہودیوں نے فلسطین آکر عربوں کو منہ مانگے دام دے کر وہاں زمینیں خریدنی شروع کر دی تھیں۔
سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوا اور فلسطین برطانیہ کے زیرتسلط آگیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کا قلع قمع کرنے کا فیصلہ کیا اور یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور جو زندہ بچ پائے وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پناہ گزین ہو گئے۔
جنگ کے دوران اور خاتمے پر بنیادی طور امریکا، برطانیہ اور فرانس نے اس بکھری ہوئی قوم کو فلسطین میں بسانے کا ارادہ کیا اور بحری جہازوں کے ذریعے ہزاروں یہودیوں کو فلسطین پہچانے کا بندوبست کیا۔
’لیون یورس‘ کا ناول ’ایکسوڈس‘ (Exodus ) اور اسی نام سے اس ناول پر مبنی پال نیومین اور ایوا گارڈنر کی فلم میں یہودیوں کے انخلا کا پورا احوال موجود ہے۔
عربوں کو اس وقت تک صورتحال کی نزاکت کا علم نہ ہو سکا جب تک کہ صہیونی تحریک نے اپنے لیے فلسطین میں ایک الگ ریاست کا مطالبہ نہ کر ڈالا۔
1967 میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق فلسطین کو 2 ملکوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ 1968 میں اسرائیل کے قیام پر فلسطینیوں اور عرب ممالک کا شعوری طور پر شدید ردعمل سامنے آیا اور انہوں نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ اسرائیل کو اس وقت بھی امریکا اور برطانیہ کی جانب سے مالی امداد اور جنگی سازوسامان مہیا کیا گیا جس کے سامنے عربوں کی ایک نہ چلی اور نہ صرف شکست کھائی بلکہ اپنے علاقے بھی گنوا بیٹھے۔ اس شکست کے بعد اگر عرب اور مسلم دنیا کی جانب سے زمینی حقائق پر مبنی اور حقیقت پسندانہ رویہ اپنایا جاتا تو شاید آج فلسطینی عوام ایسی دردناک صورتحال کا شکار نہ ہوتے۔
1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کا قیام ہوا۔ غزہ کی پٹی سنہ 1968 کی جنگ کا شاخسانہ ہے جس میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو اس 40 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹر چوڑی پٹی میں قید کر دیا۔
ایک اندازے کے مطابق 1950 سے 1970 تک ہزاروں فلسطینی اردن میں جا کر آباد ہوئے اور وہاں سے اپنی آزادی کی تحریک چلانے لگے۔ فلسطینی مجاہد لیلیٰ خالد کے نام سے کون واقف نہیں۔ لیلیٰ بھی ایڈورڈ سعید کی طرح ایک مسیحی فلسطینی مجاہد تھی اور اس تحریک میں پیش پیش رہی۔ یہ سمجھنا کہ یہ صرف مسلمانوں کی جدوجہد تھی ایک غلط تاثر ہے۔ ہاں البتہ آبادی کے تناسب سے مسلمان ہی اس تحریک میں اکثریت میں تھے۔
1979 میں کیمپ ڈیوڈ ایک دو طرفہ معاہدہ تھا جس میں اسرائیل نے اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنے کا عندیہ دیا اور مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ لیکن جب اسرائیل نے 1982 میں لبنان میں صابرہ شتیلا کے کیمپوں میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا تو اس کے نتیجے میں 1987 میں ’پی ایل او‘ نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور ’حماس‘ کی بنیاد رکھی۔ ’حماس‘ نے شروع میں ایک خیراتی ادارہ بنایا تاکہ فنڈ اکٹھا کیا جا سکے۔
ایک سازشی نظریہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے ’حماس‘ کی مالی امداد کی تھی کیونکہ ان کے خیال میں یہ تنظیم سیکولر ’پی ایل او‘ کے ساتھ توازن قائم کرنے کے کام آسکتی تھی۔ اسحاق رابن جو اُس وقت غزہ کا اسرائیلی فوجی گورنر تھا‘ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اُس نے اس خیراتی ادارے کو فنڈز فراہم کیے تھے۔
ابھی حالیہ ’حماس‘ کے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری کر کے تقریباً اس پٹی کو تہس نہس کر دیا ہے جبکہ اسرائیل کے وزیراعظم نے دو ٹوک لہجے میں دھمکی دی ہے کہ یہ تو ابھی شروعات ہے۔
اسرائیل ایک طاقتور اور منہ زور ملک بن چکا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلم ممالک میں کوئی اس کا ہم پلہ نہیں۔
بین لاقوامی میڈیا پر اس کا راج ہے۔ ہر چند سال کے وقفے سے ہالوکاسٹ پر فلمیں آسکر لے کر دنیا کو یہودیوں کے ساتھ ہونے والے جبر اور ظلم کو بھولنے نہیں دیتیں، لائف از بیوٹی فل، دی ریڈر، شنڈلرز لسٹ، گلومی سنڈے، دی پیانسٹ، صوفیز چوائس، ایک لمبی فہرست ہے ایسی ہالی وڈ اور یورپین فلموں کی جن کا سلسلہ ہالوکاسٹ پر جا کر ملتا ہے۔
یہ اکیسویں صدی ہے یہاں وہی چیز بکتی ہے جس کی مارکیٹنگ بہترین ہوگی۔ ان 70 سالوں میں فلسطینیوں پر مسلم ممالک نے کتنی ایسی فلمیں تخلیق کیں جن میں اسرائیل کے مظالم کو بے نقاب کیا گیا ہو؟ زرا آنکھوں پر پڑا پردہ ہٹا کر دنیا کو دیکھیے تو اسرائیل کو سب سے پہلے مسلم دنیا کے ملک ترکیہ نے 1949 میں تسلیم کیا۔ آج دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر کے تجارتی منصوبے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اردن، مصر، مراکش، متحدہ عرب امارات اورسوڈان بھی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔
’حماس‘ کے حملے کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں پر ہر امداد اور بنیادی ضروریات کی رسائی مکمل بند کر دی ہے تو دوسری جانب مصر نے غزہ سے ملنے والی سرحد کو فلسطینیوں کے لیے بند کر دیا ہے۔
ہم کتنا بھی احتجاج کر لیں، اپنی یکجہتی کا اظہار کر لیں لیکن کیا ہم ان کے زخموں کا مداوا کرنے کے قابل ہیں؟ کیا ہم رات کے خوفناک اندھیرے میں بمباری سے کھنڈر ہوتے غزہ کی ہولناکی کو اپنے آرام دہ گھروں میں بیٹھ کرمحسوس کر سکتے ہیں؟ نہیں بلکل بھی نہیں! بہت آسان ہے یہ کہنا کہ کیا اپنے حقوق کے لیے جنگ نہ کریں یا یہ کہنا کہ ویسے کون سی فلسطینیوں کی زندگی بہتر تھی۔
اس میں کسی کو شک نہیں کہ ہالوکاسٹ انسانی تاریخ پر ایک بدنما داغ ہے۔ لیکن اس بدنما داغ کے ذمہ دار فلسطین یا عرب ممالک نہیں بلکہ خود یورپ ہے اور کئی دہائیوں سے سزا فلسطین کے نہتے عوام بھگت رہے ہیں۔
اگر حماس کے اسرائیل پر حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کو کھنڈر بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو دنیا کے طاقتور ترین ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میڈیا یک طرفہ رپورٹنگ کر رہا ہے سوائے اکا دکا چینلز کے۔
بےشک آج سب نے شتر مرغ کی مانند اپنے منہ ریت میں چھپائے ہوئے ہیں لیکن جس طرح یہودیوں کے ہالوکاسٹ پر جرمنی اور مغربی دنیا آج شرمسار ہے۔ ایک دن فلسطینی ہالوکاسٹ بھی آسیب کی طرح ان کا پیچھا کرے گا۔
انسانیت دونوں محاذوں پر موت کے دہانے پر ہے۔ ایک محاذ پر جسمانی موت تو دوسری جانب ضمیر کی موت ہورہی ہے۔