پنجاب میں زمین کی تقسیم کے تنازع سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست غیر واضح ہونے پر درخواست گزار کے وکیل کی سرزنش کردی، بولے؛ کیا پنجاب کے لا کالجز ڈرافٹنگ نہیں سکھاتے، پورا نظام ہی خراب کردیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے درخواستوں کی ڈرافٹنگ صحیح نہ ہونے پر پاکستان اور پنجاب بار کونسل ایسوسی ایشن کو نوٹس بھی جاری کر دیے ہیں، جن میں بار کونسلز سے دریافت کیا گیا ہے کہ پنجاب کے لا کالجز میں ڈرافٹنگ سکھائی جاتی ہے یا نہیں، بار کونسلز اپنے جوابات تحریری طور پر جمع کرائیں تا کہ عدالت فیصلہ دے سکے۔
سپریم کورٹ نے اپنے نوٹس میں کہا ہے کہ موجودہ کیس کی میرٹس سے بار کونسلز کا کوئی تعلق نہیں، کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے 6 ہفتوں کے بعد مقرر کیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں زمین کی تقسیم کے تنازع سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست گزار کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ درخواست میں استدعا ہی درج نہیں ہے، پنجاب کے وکیل دعوی لکھنا کب سیکھیں گے، کیا پنجاب کے تمام لاء کالجز بند کر دیں۔
’عرضی نویس سے دعوی مرتب کروایا جاتا ہے، بتائیں کیا قانون عرضی نویس سے دعوی مرتب کرنے کی اجازت دیتا ہے، قانون میں کہاں لکھا ہے کہ وکیل صرف عدالت میں کھڑے ہو کر دلائل دے گا۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ دعوی لکھ کر اس کی تصدیق کرکے جمع کرائے، اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ لڑائی جھگڑے پنجاب میں ہوتے ہیں، وہیں وکلا کی ہڑتالیں بھی سب سے زیادہ پنجاب میں ہوتی ہیں۔‘
چیف جستس کا مزید کہناتھا کہ پنجاب کے سینئر وکلا بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہڑتالیں کرتے ہیں، ہڑتال کرنا وکیل کا حق کیسے ہوگیا، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور یہاں عرضی نویس سے کیس کی ڈرافٹنگ کرائی جاتی ہے، پورا نظام ہی خراب کردیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا پنجاب کے لا کالجز ڈرافٹنگ نہیں سکھاتے، بلوچستان کے پسماندہ علاقے تربت میں جائیں وہاں بھی وکیل خود ڈرافٹنگ کرتا ہے،
درخواست گزار کے وکیل چوہدری افراسیاب کی جانب سے اس اعتراف کے بعد کہ متعلقہ درخواست انہوں نے تحریر نہیں کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ آپ کے توسط سے تمام وکلا کو پیغام دے رہے ہیں کہ کیس کی تیاری کیا کریں۔