نواز شریف وطن واپس آئے، کامیاب جلسہ کیا، مریم نواز سرخرو ہوئیں،اور شہباز شریف تکون کا حصہ بنے۔ منظر ایسا تھا بعض پر رقت طاری ہوئی، بعض نے مگر مچھ کے آنسو بہائے۔ جلسہ گاہ سے باہر بھی بے شمار لوگ تھے جو میاں صاحب کے دیدار اور بریانی کے ذائقے سے محروم رہے۔
فضا میں کبوتر، ڈرون اور غبارے چھوڑے گئے۔ نئے نغمات جن میں مرکزی کردار نواز شریف کا تھا وہ ریلیز کیے گئے۔ بقول شخصے مینار پاکستان رنگ و نور سے نہا گیا، فضا نعروں سے گونج اٹھی، استقبالیہ کمیٹی کی نیا پار لگی، یوں میاں صاحب خیر سے وطن واپس آگئے۔
تقریر میں اپنے پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تذکرہ بارہا کیا۔ نہایت سادگی سے عوام سے بار بار پوچھا کہ وہ کون ہے جو نواز شریف کو اپنے عوام سے جدا کر دیتا ہے۔ جیسے وہ خود اور عوام جانتے ہی نہیں کہ ان کارہائے نمایاں کا سہرا کس کے سر سجتا ہے، یہ تمغہ کس کے سینے پر آویزاں ہوتا ہے۔ جانتے سب ہیں ، مانتے سب ہیں بس ذرا پریس کانفرنسز میں آبدیدہ لوگ دیکھ کر دل ڈرے ہوئے ہیں۔ ورنہ کون قوم کے مرد ان مجاہد سے واقف نہیں۔
نواز شریف نے خطاب میں حد درجہ احتیاظ برتی۔ نہ کسی پر الزام لگایا نہ دشنام کی نوبت آئی۔ نہ جنرل باجوہ کا ذکر چھیڑا نہ فیض حمید کو یاد کیا۔ نہ ووٹ کی عزت کا مطالبہ کیا نہ آئین وغیرہ کا کوئی خاص ذکر کیا۔ حتیٰ کہ پارلیمان کی سپریمیسی اور جمہوریت کے خصائص گنوانے سے بھی احتیاطاً اجتناب کیا۔
عمران خان کے سہولت کاروں کا کیا نام لینا تھا عمران خان کا نام بھی نہیں لیا۔ ایک دفعہ شاید سہواً عمران خان کا نام زبان پر آ گیا تو فوراً اس کی بھی تردید ہی فرما دی اور کہا میں نام نہیں لینا چاہتا۔
میاں صاحب نے تقریر میں امن کا وہ تصور پیش کیا کہ کبوتر ان کے ہاتھ پر آکر بیٹھ گیا۔ امن کی فاختائیں ان کے گرد رقص کرنے لگیں۔ آشتی کا وہ پیغام دیا جس کی مثال نہیں بنتی۔ اس تقریر کے بعد میاں صاحب کو امن کے نوبل انعام کے لیے تو نامزد کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستانی سیاست کا یہ دستور ہے نہ روایت۔ یہ رسم نہیں ہے اس سماج کی۔
ایک سابق وزیراعظم ہوا کرتے تھے، نام تھا ان کا عمران خان۔ وہ اپنے غصے کو اپنی سچائی کی دلیل سمجھتے تھے۔ گالیاں دینے کو اپنا حق گردانتے تھے۔ کسی کی گیلی شلوار کو تذکرہ مباح سمجھتے تھے۔ کسی کو مونچھوں سے پکڑ کر الٹا لٹکانے کی سرعام دھمکیاں دیتے تھے۔ آئی جی وغیرہ کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے کی دھمکی بھی بارہا دی۔
کبھی کسی کے ایئرکنڈیشن اتروانے کا نعرہ لگاتے، کبھی کسی کو جیل میں بھیجنے کی خبر سناتے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان نے اینگری ینگ مین کا تصور بڑی کامیابی سے بیچا حالانکہ اہم میٹنگنز میں نہ وہ اینگری ہوتے تھے نہ اس عمر میں انہیں ینگ کہنے کی کوئی جسارت کر سکتا ہے۔
یہ منتقم المزاجی عوام میں بہت مقبول ہوئی۔ لوگ گلی محلوں میں اپنے لیڈر کی تقلید میں مخالفین کا گریبان پھاڑنے لگے۔ ٹاک شوز میں جوتے، گالیاں، تھپڑ اور مکے چلنا شروع ہو گئے۔ عزت دار آدمی زیادہ ریٹنگ والے ٹاک شوز سے ایسے دور رہنے لگے جیسے شرفا کسی بدنام محلے کے قریب پھٹکنے سے بھی گریزکرتے ہیں۔ لیکن اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ان ہتھکنڈوں نے عمران خان کو بہت مقبول کیا۔ لوگوں کو یوں لگا جیسے انہوں نے ظلم کی دیواریں گرا دیں، ہر نقش کہن کو مٹا دیا، اسٹیبلشمنٹ تک کو لٹا دیا۔
اگر قارئین بات سمجھنا چاہیں تو اس ایک مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔
کسی زمانے میں پاکستان کی سب سے مقبول فلم ہوا کرتی تھی:’آئینہ‘۔ ندیم شبنم کی روم کام، عالمگیر اور نیرہ نور کے گیتوں سے مترنم ۔ امیر لڑکی غریب لڑکا ظالم باپ وغیرہ وغیرہ۔ فلم کامیاب ہوئی کیونکہ آخر میں ظالم باپ کو شکست ہوئی، اور پھر ہیرو ہیروئن ہنسی خوشی رہنے لگے۔
کہا جاتا یہ پاکستان میں سب سے زیادہ ہفتوں تک سینما گھروں میں چلنے والے فلم تھی۔ اس کے بعد ہماری سیاست بدلی، اس کا اثر فلموں پر بھی پڑا، ’آئینہ‘ کا ریکارڈ ’مولا جٹ‘ نے توڑا۔ جس میں سب سے زیادہ تالی اس وقت بجتی تھی جب مولا پولیس والے کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے۔
اس فلم کا ریکارڈ پھر ’شیر خان‘ نے توڑا جس کے شروع میں ایک شخص سٹین گن پکڑتا ہے، آخر تک اسی کو چلاتا رہتا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ فلمیں بننا بند ہوگئیں اور ناظرین کو ’وار‘، یا ’یلغار‘ جیسی فلموں کی توصیف کے ساتھ اپنا وقت گزارنا پڑا۔
میاں صاحب ہم ایسا سماج تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ جہاں نیلسن منڈیلا بھی ستائیس سال جیل کاٹنے کے بعد ظالم گوروں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتا تو لوگوں نے کہنا تھا کہ ’تھلے لگ گیا ، تھلے لگ گیا‘۔
یہاں عام معافی بزدلی سمجھی جاتی ہے، یہاں تحمل بے وقوفی سمجھا جاتا ہے، یہاں ﷽ پڑھ کر بڑھک مارنا پڑتی ہے، یہاں مخالف کی ’کنڈ‘ زمین پر لگانا پڑتی ہے۔
آپ شہباز شریف کی تفویض کردہ مصلحت کے پیش نظر نہ عمران خان کے سہولت کاروں کا نام لے سکتے ہیں نہ جنرل باجوہ کا ذکر ہو سکتا ہے۔ نہ آئین کی حرمت کا نعرہ لگایا جا سکتا ہے نہ پارلیمان کی سپریمسی کی بات ہو سکتی ہے، اور نہ ووٹ کی عزت کا علم بلند کیا جا سکتا ہے لیکن ثاقب نثار کا تو احتساب ہو سکتا ہے،عمران خان کے بارے میں بات ہو سکتی ہے۔
آئین سے غداری کرنے والوں کا اگر احتساب نہیں ہو سکتا تو کم از کم ان کا نام تو لیا جا سکتا ہے۔ اس سے بہتر موقع تاریخ آپ کو نہیں دے گی۔ امن کی فاختہ پہلے بھی آپ کندھے پر بٹھا کر پھرتے رہے ہیں لیکن ظلم کا شاہین ہمیشہ اس فاختہ کو شکار کرتا ہی رہا ہے۔
آپ کو اس بات پر غور نہیں کرنا کہ آپ چوتھی دفعہ وزیر اعظم بنیں گے یا نہیں، آپ کو یہ سوچنا ہے کہ دوہزار اٹھائیس میں مینار پاکستان کون بھرے گا؟ اس وقت کبوتر کس کے ہاتھ پر بیٹھے گا؟ میڈیا کس کی آمد کی بریکنگ نیوز چلائے گا؟