بلوچستان میں قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کا سیاست میں ہمیشہ سے ایک اہم کردار رہاہے جو حکومتوں کی تشکیل میں اپنا دباؤ ڈالتے رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے نشیب و فراز بلوچستان کی سیاست میں ہلچل پیدا کرتے رہے ہیں۔ ایک دور میں یہ مانا جاتا تھا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان کو سنجیدگی سے نہیں لیتی تھیں تاہم گزشتہ چند دہائیوں سے یہ تاثر زائل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے اس بار ایسا کیا کیا؟
پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نے حالیہ کچھ عرصے میں یہ ثابت کیا ہے کہ بلوچستان میں حکومت سازی اور انتخابی عمل میں پاور شو کے لیے صوبہ کے بڑے سیاسی ناموں کو نہ صرف پارٹی میں شمولیت کے مواقع فراہم کیے بلکہ عوام کی پسند ناپسند کی بنیاد پر بھی سیاسی فیصلے کیے گئے۔
مزید پڑھیں
وفاداریاں بدلنے کا موسم
بات کی جائے آئندہ انتخابات کی تو اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی نے بلوچستان کے بڑے سیاسی ناموں کو پارٹی پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کی کاوشوں کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے منتخب ارکان کے علاوہ کئی چند ایسے نام بھی پیپلز پارٹی کو پیارے ہوئے جو ہمیشہ آزاد حیثیت میں انتخابات کا کھٹن مرحلہ عبور کرتے رہے۔ ان پے در پے شمولیتوں کو اس وقت ایک بریک لگی جب پی ڈی ایم کی حکومت اپنے آخری ایام میں داخل ہوچکی تھی، بلوچستان کے اس وقت کے منتخب ارکان اور بڑے سیاسی نام اپنے حلقے کا ووٹ بینک لے کر مسلم لیگ ن کی قیادت کے پاس جاپہنچے، تاہم اس وقت تک پارٹی کے قائد میاں محمد نواز شریف کے وطن واپسی سے متعلق کوئی فیصلہ متوقع نہیں تھا۔
بلوچستان کی سیاست کا المیہ
اس حوالے سے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار شاہد رند نے کہا کہ بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مرکز میں حکومت بنانے والی سیاسی جماعت کا حصہ بنیں کیونکہ ان سیاسی رہنماؤں کے مفادات کا سلسلہ وزیراعلیٰ کے منصب سے شروع ہوکر تحصیلدار کے تبادلوں تک ہوتاہے، وفاقی جماعتوں کی سیاست کرنے والے رہنماؤں کا وفاق کی کسی جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ کسی نظریے نہیں بلکہ مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے، المیہ یہ ہے کہ ایسے رہنماؤں کی سوچ کی وجہ سے مرکز کی سیاسی جماعتوں کی توجہ صوبے پر نہیں ہوتی۔
سیاسی پرندے اور خاص گھونسلے
شاہد رند نے کہا کہ انتخابات سے قبل ایسی کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کہ مرکز کی کون سی سیاسی جماعت برسر اقتدار ہوگی، بلوچستان میں جب بھی ہواؤں کا رخ بدلتا ہے تو سیاسی پرندوں کا رخ ایک خاص گھونسلے کی جانب ہوجاتا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ ایک سال قبل ایسی ہوا چلی کہ پاکستان پیپلز پارٹی مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے تو ان تمام سیاسی پرندوں نے پیپلز پارٹی کے گھونسلے میں پناہ لے لی، اب ایک بار پھر ہواؤں کا رخ بدلا ہے اور مسلم لیگ ن وفاق میں حکومت بنانے کی بڑی دعویدار معلوم ہوتی ہے ایسے میں ایک بار پھر سیاسی رہنماؤں کی ن لیگ میں شمولیت کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں، ان سیاسی پرندوں کا نظریے سے نہیں مفاد سے مضبوط رشتہ ہے۔
نواز شریف کی آمد سے بلوچستان کی سیاست کا رخ بدل گیا ہے؟
صوبے کے ایک اور سینئر صحافی خالق رند نے وی نیوز کو بتایا کہ بلوچستان میں ہمیشہ سے مسلم لیگ ن کا ایک ووٹ بینک رہا ہے، 1988ء کے انتخابات کے بعد سے مسلم لیگ ن صوبے میں کئی بار حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے، میاں نواز شریف کی آمد سے قبل صوبے میں یہ تاثر عام تھا کہ وفاق میں پیپلز پارٹی اقتدار کی کرسی سنبھالے گی لیکن نواز شریف کی آمد سے اونٹ کسی کروٹ بیٹھ گیا ہے اور سیاست نے بھی اپنا رخ موڑ لیا ہے، اب بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وفاق میں مسلم لیگ ن اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوگی، ایسے میں صوبے کے اہم سیاسی و قبائلی رہنما مسلم لیگ ن میں شمولیت کے لیے پر تول رہے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں آئندہ حکومت کس کی ہوگی۔
خالق رند کا کہنا تھا کہ بلوچستان جیسے صوبے میں انتخابات سے قبل بڑے سیاسی ناموں کی پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن میں شمولیت اور نواز شریف کی واپسی کے بعد آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی ممکنہ کامیابی اس جانب واضح اشارہ کرتی ہے کہ ن لیگ بلوچستان سے مزید کئی بڑے سیاسی نام اپنے اندر سمو لے گی اور صوبائی حکومت کی تشکیل میں واضح کردار ادا کرے گی۔