2013 میں ڈاکٹر یاسمین راشد پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر لاہور کے اس وقت کے حلقہ 120 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مدمقابل تھیں، پی ٹی آئی کے 2011 کے جلسے کی دھوم ہر طرف پھیل چکی تھی، امیدوار دھڑا دھڑ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر رہے تھے، اسی اثناء میں 2013 کا انتخابی میدان بھی سج چکا تھا۔
امیدواروں نے اپنے اپنے حلقوں میں بھر پور انتخابی مہم برپا کی اس وقت نہ تو کوئی خلائی مخلوق کا ذکر کرتا نظر آیا اور نہ ہی کوئی جماعت اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے ساتھ میدان میں اتری تھی۔
این اے 120 میں ایک بڑا مقابلہ متوقع تھا، الیکشن کا دن آیا اور نواز شریف نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو تقریباً 40 ہزار ووٹوں کے فرق سے ڈاکٹر یاسمین راشد کو ہرا دیا، نواز شریف نے 91 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے 52 ہزار کے لگ بھگ ووٹ لیے تھے۔2013 میں نہ صرف نواز شریف جیتے بلکہ انکی جماعت بھی بھاری اکثریت سے ملک بھر میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔
حال ہی میں رہنما تحریک انصاف ڈاکٹر یاسمین راشد کا ایک بیان اس وقت سامنے آیا ہے، جب وہ 9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں پابند سلاسل ہیں، آئے دن انہیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں پیش بھی کیا جارہا ہے، اس نوعیت کی ایک پیشی پر انہوں نے نواز شریف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بہادر ہیں تو ان کے خلاف الیکشن لڑ کر دکھائیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کا موقف تھا کہ ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کا مطلب ہے جس نے الیکشن لڑنا ہے وہ باہر ہو، ان کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر بھی کافی تبصرے ہو رہے ہیں لیکن مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری نے اپنے رد عمل میں کہا ہےکہ نواز شریف اپنے پرانے حلقے سے ہی الیکشن ضرور لڑیں گے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کو مخاطب کرتے ہوئے لیگی ترجمان بولیں؛ آپ کا پتہ نہیں آپ ہوں گی یا نہیں، اس کا فیصلہ تو ہونے دیں، نواز شریف کے مد مقابل جو بھی (موجودہ) این اے 125 میں ہوگا شکست اسکا نصیب ہوگی۔ ’اگر یاسمین راشد اتنی بہادر ہیں تو پہلے سچ تو بول کے دکھائیں، اس ملک میں فساد اور فوج میں بغاوت کی تفصیلات بتائیں، اپنی آڈیوز کا جواب دیں، کورونا فنڈ، محکمہ صحت کی کرپشن ابھی باقی ہے۔‘
بیگم کلثوم نواز بمقابلہ ڈاکٹر یاسمین راشد
ڈاکٹر یاسمین راشد کے نواز شریف کو چیلنج دینے کے بعد انتخابی کی تاریخ کو کھنگالا جارہا ہے، نواز شریف، ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دے کر وزیر اعظم بن گئے لیکن 2017 میں پاناما کیس میں ان کی نااہلی کے بعد این اے 120 کی نشست پھر خالی ہوگئی تھی اور نواز شریف اس مرتبہ ڈاکٹر یاسمین راشد کے مد مقابل نہیں تھے۔
اس وقت نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز نے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی اس حلقے سے الیکشن لڑا اور پارٹی اور نواز شریف کے لیے مہم چلاتے ہوئے ضمنی انتخاب میں 61 ہزار ووٹ لے کر ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔
وحید عالم خان بمقابلہ ڈاکٹر یاسمین راشد
2018 کے الیکشن میں سب کچھ بدل چکا تھا ، لاہور کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 120 اب این اے 125 میں تبدیل ہو چکا تھا، ن لیگ کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بھی عروج پر تھا اور اس دفعہ اسی حلقے سے نہ نواز شریف الیکشن لڑ رہے تھے اور نہ ہی بیگم کلثوم نواز اپنی بیماری کے خلاف الیکشن لڑ سکتی تھیں، اس موقع پر ن لیگ نے پارٹی کارکن وحید عالم کو ٹکٹ دیا، تحریک انصاف نے اس حلقے سے ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر یاسمین راشد کو میدان میں اتارا لیکن وہ تیسری مرتبہ بھی کامیاب نہ ہو سکیں اور وحید عالم خان تقریباً 17 ہزار ووٹوں کی برتری سے ڈاکٹر یاسمین راشد پر سبقت لے گئے۔