ایک نہایت شاطر اور ماہر چور نے چوری کی خاطر، مہنگا لباس زیب تن کرکے معزز اور محترم دکھائی دینے والے شیخ جیسا حلیہ بنایا اور صرافہ بازار میں سنار کی ایک دکان کے اندر چلا گیا۔
سنار نے جب اپنی دکان میں وضع قطع سے نہایت ہی رئیس اور محترم دکھائی دینے والے شیخ کو دیکھا تو سنار کو ایسا لگا جیسے اس کی دکان کے بھاگ جاگ اٹھے ہوں۔
سنار کو پہلی بار اپنی چھوٹی سی دکان کے عزت و وقار میں اضافے کا احساس ہوا۔ سنار نے آگے بڑھ کر شیخ کا استقبال کیا۔
شیخ کے بہروپ میں چور نے کہا: آپ سے آج خریداری تو ضرور ہوگی مگر اس سے پہلے بتائیں کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ اپنی سخاوت سے ہمارے ساتھ مسجد بنانے میں حصہ ڈالیں؟ اس نیک کام میں آپ کا حصہ خواہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔
سنار نے چند درہم شیخ کے حوالے کئے ہی تھے کہ اسی اثناء میں ایک لڑکی جو درحقیقت چور کی ہم پیشہ تھی۔ دکان میں داخل ہوئی اور شیخ کے پاس جا کر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ التجائیہ لہجے میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خیر و برکت کی دعا کے لیے کہا۔
سنار نے جب یہ منظر دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا۔ اے محترم شیخ لا علمی کی معافی چاہتا ہوں مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔
لڑکی نے یہ سن کر تعجب کا اظہار کیا اور سنار سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔ تم کیسے بدنصیب انسان ہو۔ برکت، علم، فضل اور رزق کا سبب چل کر تمھارے پاس آگیا ہے اور تم اسے پہچاننے سے قاصر ہو۔
لڑکی نے شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں علاقے کے مشہور و معروف شیخ ہیں۔ جنہیں خدا نے کثرت علم، دولت کی فروانی اور ہر قسم کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔
انہیں انسانوں کے بھلائی کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں ۔
سنار نے شیخ سے معافی مانگتے ہوئے کہا ’شیخ صاحب میں معافی کا طلبگار ہوں۔ میرا سارا وقت اس دکان میں گزرتا ہے اور باہر کی دنیا سے بے خبر ہوں۔ اپنی جہالت کی وجہ سے برگزیدہ ہستی کو نہ پہچان پایا۔
شیخ نے سنار سے کہا’ کوئی بات نہیں انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی پر نادم ہونے والا شخص خدا کو بہت پسند ہے۔ تم ایسا کرو ابھی میرا یہ رومال لے لو اور سات دن اپنا چہرہ پونچھتے رہو۔
سات دنوں کے بعد یہ رومال تمہارے لیے ایسی برکت اور ایسا رزق لے آئے گا جہاں سے تمہیں توقع بھی نہ ہو گی۔ جوہری نے پورے ادب و احترام کے ساتھ رومال لیا اور اسے بوسہ دیا۔
آنکھوں کو لگایا اور اپنا چہرہ پونچھا۔ ایسا کرتے ہی وہ بے ہوش کر گر گیا۔ اس کے گرتے ہی شیخ اور اس کی ساتھی لڑکی نے سنار کی دوکان کو لوٹا اور وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔
واقعے کو چار سال گزر گئے اور سنار رو دھو کر اپنا نقصان بھول چکا تھا۔ ایک دن پولیس کی وردی میں ملبوس دو اہلکار سنار کی دکان پر آئے۔ ان کے ساتھ وہی چور شیخ تھا جس کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ سنار اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔
ایک پولیس والا سنار کے پاس آکر پوچھنے لگا کیا آپ اس چور کو جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ کی گواہی سے ہی قاضی اسے سزا سنا سکتا ہے۔
سنار نے کہا کیوں نہیں اس نے فلاں فلاں طریقہ واردات سے مجھے بے ہوش کرکے میری دکان لوٹ لی تھی۔ پولیس والا شیخ کے پاس گیا اور اس کی ہتھکڑی کھولتے ہوئے کہنے لگا۔
تم نے جس طرح دکان لوٹنے کا جرم کیا تھا ٹھیک اسی طرح وہ ساری کارروائی دہراؤ تاکہ ہم طریقہ واردات کو لکھ کر گواہ سمیت قاضی کے سامنے پیش کرکے تم پر فرد جرم عائد کروا سکیں۔
شیخ نے بتایا کہ میں اس طرح دکان میں داخل ہوا اور یہ کہا۔ اور میری مددگار لڑکی آئی اس نے فلاں فلاں بات کی۔ پھر میں نے رومال نکال کر دکاندار کو دیا۔
پولیس والے نے جیب سے ایک رومال نکال کر شیخ کو تھمایا۔ شیخ نے سنار کے پاس جاکر اسی طریقے سے اسے رومال پیش کیا تو پولیس والا سنار سے کہنے لگا۔
جناب آپ بالکل ٹھیک اسی طریقے سے رومال کو چہرے پر پھیریں جیسے اس دن پھیرا تھا۔ سنار نے ایسا ہی کیا اور وہ پھر سے بے ہوش ہوگیا۔
شیخ نے اپنے نئے دوستوں کی مدد سے دوبارہ دکان لوٹ لی جنہوں نے پولیس اہلکاروں کا بھیس بدل رکھا تھا۔
قارئین ! عربی ادب سے ماخوذ اس قصے کی ہمارے ملکی حالات سے مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔