صوبائی انتخابات کا اعلان : چیف جسٹس کا از خود نوٹس پر سماعت کل مکمل کرنے کا عزم

پیر 27 فروری 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے اعلان میں تاخیر پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ سے چار ججز کی علیحدگی کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے باقی ماندہ پانچ ججوں پر مشتمل بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے سماعت جاری رکھی۔

جسٹس منیب اختر نے حیرانگی ظاہر کی کہ پورے ملک میں کرکٹ میچز کیلئے پیسے ہیں انتخابات کیلئے نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن کی تاخیرکی تائید کرے۔

 جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کی تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں جبکہ جسٹس جمال مندوخیل بولے؛امن وامان کا معاملہ  گورنرکا نہیں الیکشن کمیشن کا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس اب صرف اسی سوال پر جاری ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔

 

آج صبح کیا ہوا؟

 سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے پہلے ساڑھے11، پھر 12 بجےکا وقت دیا گیا تھا تاہم سماعت ڈیڑھ بجے کے قریب شروع ہوئی۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی  لارجر بینچ  نے کرنا تھی۔ جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

 سپریم کورٹ نے 23 فروری کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا تحریری حکم جاری کیا جس پر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل سمیت جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اختلافی نوٹ لکھا ۔

جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس سننے سے معذرت کرلی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 4 ججز نے خود کو کیس سے علیحدہ کرلیا ہے لہذا آئین کی تشریح کے لیے 5 ججز پر مشتمل بینچ کیس کی سماعت جاری رکھے گا۔ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے۔ کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

وکیل علی ظفر کے دلائل

عدالتی حکم پر دونوں صوبائی اسپیکرز کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی، گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہیں کی۔ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنرکے اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت پر ازخود اسمبلی تحلیل ہوجانےمیں فرق ہے۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا۔ پنجاب میں 90 دن کا وقت 14 جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔

 جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرنا کس کا کام ہے؟علی ظفر نےکہا کہ انتخابات کی تاریخ کا کون ذمہ دار ہے اسی معاملے پر ازخود نوٹس لیا گیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن کی تاخیرکو جسٹیفائی کرے، کیا کوئی انتخابات میں تاخیر کرسکتا ہے؟

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں کرسکتا، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیےکہ گورنرپنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا، اس پر وکیل علی ظفر نےکہا کہ انتخابات کی تاریخ پر پنگ پانگ کھیلا جا رہا ہے،گورنریا الیکشن کمیشن کو عدالت انتخابات کی تاریخ مقررکرنےکا حکم دے سکتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کا طویل التوا، کیوں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں فریقین کے کہنے پر مقدمہ مؤخر ہوا ہے؟

وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس لیے ہائی کورٹ سے مؤخرہوا۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں جاری انٹراکورٹ اپیل میں کوئی حکم امتناع نہیں دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کا حکم دیا تھا، کیا کوئی توہین عدالت کی درخواست دائر ہوئی؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہوچکی ہے۔ وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توہین عدالت کیس میں مبہم جواب دیا گیا، لاہور میں انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت 16 فروری کو ہوئی، اب 21 فروری کو ہوگی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ نے  اس قدر طویل التوا کی وجوہات دیں؟ ٹھوس وجوہات کے بغیر اہم معاملے میں اتنا لمبا التوا نہیں دیا جاسکتا۔

وکیل اظہرصدیق نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرانے کا وقت مانگا جس پر التوا دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات کی تاریخ کا حکم دیا تھا، کیا کوئی توہین عدالت کی درخواست دائر ہوئی؟

وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہوچکی ہے۔

وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توہین عدالت کیس میں مبہم جواب دیا گیا۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ نے اتنے لمبے التوا کی وجوہات دیں؟ ٹھوس وجوہات کے بغیر اہم معاملے میں اتنا لمبا التوا نہیں دیا جاسکتا۔

وکیل اظہر صدیق نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ میں جواب جمع کرانے کا وقت مانگا جس پر التوا دیا گیا۔

وکیل علی ظفر نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا، 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت دائر کی گئی، صدر مملکت نے معاملے پر 2 خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنےکا کہا گیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے استفسارکیا کہ کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا؟ اس پر وکیل علی ظفر نےکہا کہ میری معلومات کے مطابق پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا۔

صدر مملکت کا خط ہائی کورٹ کے حکم سے متضاد

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیےکہ صدر مملکت کا خط ہائی کورٹ کے حکم کے متضاد ہے، ہائی کورٹ نےگورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینےکا کہا تھا، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینےکا کہا۔

جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں۔ اگر مشاورت نہیں ہوئی تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا موقف ہےکہ انتخابات کی تاریخ وہ نہیں دے سکتا، اصل معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جو دینے پر کوئی تیار نہیں، پہلے آپ، نہیں پہلے آپ کرکے تاخیر کی جارہی ہے، صدر نے تاریخ مقرر کرنےکے خط میں تمام حقائق کو واضح کیا۔

صدر سےکس نے رجوع کیا تھا کہ تاریخ دیں؟

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا صدر سےکسی نے رجوع کیا تھا کہ تاریخ دیں یا انہوں نے ازخود ایسا کیا؟

وکیل علی ظفر بولے؛  بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے صدر کو مداخلت کرنا پڑی۔ کسی نہ کسی نے تو تاریخ کا اعلان کرنا ہی ہے۔ اگرعدالت سمجھتی ہےکہ الیکشن کمیشن تاریخ دےگا تو اسے حکم جاری کرے گی۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جمہوریت میں خلا چھوڑ دیا جائے۔ باقی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انتخابات کسی اور ادارے نے کرانے ہیں تو وہ بھی عدالت کو بتادیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کے پی میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے وہاں کیا پوزیشن ہے؟ اس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہے، گورنر کے پی نے الیکشن کمیشن کو اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا ہے،گورنر کے پی نے اپنے خط میں سیکیورٹی کو بنیاد بنایا ہے، انتخابات کی تاریخ تو گورنر کے پی نے بھی نہیں دی۔

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ میں 3 آئینی درخواستیں زیر التوا ہیں۔

چیف جسٹس عمر عظا بندیال کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو؟ قانونی نکتہ طے کرنا ہے، یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا گورنر کہہ سکتا ہے کہ دہشت گردی ہو رہی ہے مشاورت کی جائے؟ میری نظر میں گورنر کے پی کو ایسا خط لکھنے کا اختیار نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ کیس اب صرف اسی سوال پر چل رہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ تاریخ کے لیے مشاورت آئین میں شامل نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دے دے تو کیا یہ توہین عدالت ہوگی؟

وکیل علی ظفر نےکہا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آئینی عمل ہے، کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس میں الیکشن 10 سال تاخیرکا شکار ہوجائے، دوسرا فریق بتادے الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے، جسے یہ کہتے ہیں اسے تاریخ کا اعلان کرنے دیں۔

 انتحابات کیلئے حالات سازگار نہ ہونے کی وجوہات؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےکہا کہ اگر انتحابات کے لیے حالات سازگار نہیں تو اس کی وجوہات بتائی جائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ  امن وامان کا معاملہ گورنرکا نہیں الیکشن کمیشن کا ہے، کیا امن وامان کا معاملہ انتخابات کی آئینی راہ میں آسکتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نےکہا کہ الیکشن کی تاریخ آئےتو ہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتےہیں یا نہیں، پورا مہینہ ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نےکہا کہ سال 2013 اور 2018 میں اسمبلیوں نے مدت مکمل کی تھی۔

ڈی جی لاء الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ  اسمبلی مدت مکمل کرے تو صدر مملکت انتخابات کی تاریخ مقرر کرتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیےکہ کے پی میں وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پرعملدرآمد ہوا لیکن پنجاب میں نہیں۔

وکیل علی ظفرکا کہنا تھا کہ اسمبلیاں نہ ہوں تو آئین میں گورننس کا کوئی اور طریقہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے لیے 90 دن کی حد مقررکی گئی ہے، 90 دن میں الیکشن کا ہونا ضروری ہے، صرف اعلان نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ  الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ذمہ انتخابات کے لیے انتظامات کرنا اور الیکشن کرانا ہے، آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی،صوبائی اوربلدیاتی انتخابات کرانے ہیں، آرٹیکل 218، 219 اور 222 الیکشن کمیشن کو انتخابات کی ذمہ داری دیتے ہیں، تمام ایگزیکٹو ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔

بعدازاں سماعت میں چاربجے تک وقفہ کردیا گیا۔

اسمبلی تحلیل ہونے کا نوٹیفکیشن کس نے جاری کیا؟

وقفہ کے بعد عدالتی استفسار پر علی ظفر نے بتایا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ ریکارڈ کے مطابق تو صوبائی حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ ڈی جی لا الیکشن کمیشن بتائیں کہ 2013 اور 2018 میں اسمبلی تحلیل ہونے کا نوٹیفکیشن کس نے جاری کیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48 گھنٹے کا وقت کب سے شروع ہوگا؟ جس پر علی ظفر کا موقف تھا کہ انکے خیال میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق آرٹیکل 112 میں دو صورتیں ہیں گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں جبکہ آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ایک کے مطابق گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ تحلیل کرے یا نہیں۔

کیا انتخابات کی تاریخ بڑھائی جاسکتی ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ  نے دریافت کیا کہ اگر کرفیو لگے یا سیلاب وغیرہ آجائے تو انتخابات کی تاریخ بڑھ سکتی ہے؟ وکیل علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن مخصوص حلقوں میں انتخابات کا وقت بڑھا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں۔ ملک میں جنگ سے دوچار ہو یا کرفیو سے تو انتخابات کیسے ہونگے؟ علی ظفر بولے؛ قانون میں سیلاب اور قدرتی آفات کا ذکر ہے جنگ کا نہیں۔ جنگ کا قانون میں کہیں ذکر نہیں اس کیلئے ایمرجنسی ہی لگائی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عظا بندیال کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ سے عملہ کی فراہمی کا کہا مگر انہوں نے نہیں دیا۔ اسی طرح کمیشن نے بجٹ بھی طلب کیا۔ جس کا مطلب یہی کہ انتخابات کی تیاری ہو رہی تھی۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے  90 دن میں انتخابات کرانے ہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن بولے؛ اسمبلیوں کی تحلیل الیکشن ایکٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔

جسٹس منیب اختر کے مطابق اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کا ذکر الیکشن ایکٹ میں ہی ہے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین گورنر کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ وکیل الیکشن کمیشن بولے؛ آئین کے تحت صدر مملکت کو غیر جانبدار اور آزاد ہونا چاہیے۔

صدر کی ڈیفالٹ پاورکا تذکرہ

جسٹس منیب اختر  کا کہنا تھا کہ گورنر کے پی نے اسمبلی تحلیل کی لہذا انہی کو انتخابات کی تاریخ بھی دینا تھی۔ جب گورنر نے تاریخ نہیں دی تو صدر کے پاس ڈیفالٹ پاور موجود ہے۔ آئین خود کہتا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا گورنر کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیاہے۔

جسٹس منیب اختر کے مطابق 1976 میں آئین خاموش تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے۔ اسمبلی نے ترمیم کرکے صدر اور گورنر کو تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے۔ پنجاب کی حد تک صدر نے شاید تاریخ درست دی ہو۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر صدر اور گورنر دونوں ہی تاریخ دے دیں تو کس کا عمل درست ہوگا؟ علی ظفر بولے؛ صوبائی اسمبلی تحلیل ہو تو گورنر کی تاریخ درست ہوگی۔

جسٹس منیب اختر  کا کہنا تھا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرکے تاریخ نہ دے تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔ انتخابات کی تاریخ دینا آئینی ذمہ داری ہے۔ بعض حالات میں ذمہ داری گورنر اور بعض میں صدر کی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے وقت قانون کے مطابق صدر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنا ہوتی ہے۔ یہ اہم معاملہ ہے کہ دیکھا جائے صدر الیکشن کمیشن سے کیا مشاورت کرتے ہیں۔ ہم جاننا یہ چاہتے ہیں کہ صدر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت کس چیز پر ہوتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کیلئے تیار ہو اور پیسے نہ ہوں تو پھر کیا ہوگا؟ الیکشن کمیشن کو سہولیات فراہم کرنے کی آئینی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

‘ملک میں کرکٹ میچز کیلئے پیسے ہیں انتخابات کیلئے نہیں’

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ حیرانگی ہے پورے ملک میں کرکٹ میچز کیلئے پیسے ہیں انتخابات کیلئے نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ سمری آنے پر اسمبلی کے تحلیل ہونے کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے۔ اپنے حکم میں گورنر انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے؟ جس پر علی ظفر بولے؛ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اسے ہی اختیار ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں۔ انکی جانب سے کیے گئے سوال کہ پارلیمنٹ کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟ علی طفر بولے؛ اگر گورنر غیر حقیقی تاریخ دے تو الیکشن کمیشن عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو کاغذات نامزدگی سمیت تمام مراحل کیلئے 52 دن درکار ہیں۔ جسٹس منیب اختر بولے؛ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی۔

جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا؟ وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق اسی بنیاد پر ہی گورنر کو تاریخیں تجویز کی تھیں۔

جسٹس منصور علی شاہ  کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات میں کا جواب دیتے ہوئے علی ظفر کا موقف تھا کہ انتخابات ہر صورت وقت پر منعقد ہوتے ہیں۔ ترکی میں اتنا بڑا زلزلہ آیا اور ان کے صدر اردگان نے انتخابات کا پھر بھی اعلان کیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تمام فریقین کے وکلا کو مختصر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ دینے کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ میں سے جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کو الگ کر کے فل کورٹ بنانے کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp