خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں 7 نومبر کو ایم کیو ایم کے وفد نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے ملاقات کی، جس کے بعد ایم کیوایم کے وفد میں شامل مصطفٰی کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار نے ن لیگ کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق اور بشیر میمن کے ہمراہ پریس کانفرنس بھی کی۔
اس ملاقات کا اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں آئندہ انتخابات میں ساتھ چلنے کے وعدے سمیت اندروان سندھ اور کراچی میں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر دونوں جماعتوں نے آمادگی کا اظہار کیا تھا، ایم کیو ایم کی دعوت پر ن لیگ کے وفد نے ایم کیو ایم سے کراچی میں ملاقات کی جس میں دونوں جماعتوں کے مطابق ملک کی بگڑتی صورتحال کو بہتر بنانے کا ایجنڈا سرفہرست تھا۔
اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے وی نیوز کو بتایا کہ ن لیگ ایم کیو ایم سے اتحاد کی اس لیے بھی خواہاں ہے کہ سندھ اور خصوصاً کراچی سے ن لیگ کچھ نشستیں حاصل کرسکے تاکہ مسلم لیگ کا پورے ملک کی نمائندہ جماعت کا تاثر ممکن بنایا جاسکے۔
’اس لیے ایم کیو ایم سے کراچی کی 3 سے 4 نشستوں پر ایڈجسمنٹ کی بات ہوئی ہے، 2013 اور 2018 میں جن نشستوں پر ن لیگ دوسرے نمبر پر آئی تھی ان حلقوں کو فوکس کیا جائے گا، ان حلقوں پر ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی بات کی جائے گی، جبکہ اندرون سندھ جی ڈی اے کے ساتھ ملکر الیکشن لڑنے کا ارادہ ہے۔‘
ن لیگ اور ایم کیو ایم اتحاد کا فائدہ کس کو ہوگا ؟
مسلم لیگ ن کے ایک رہنما کے مطابق اس اتحاد سے مسلم لیگ ن کو قومی اور وفاقی جماعت ہونے کا تاثر ملے گا نہ کہ پنجاب کی نمائندہ جماعت جبکہ دوسری جانب ایم کیو ایم کو آئندہ حکومت میں وزارتوں میں شیئر ملے گا کیونکہ کراچی میں اب ایم کیو ایم کے لیے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے دوبارہ کراچی کا حصول دشوار ہے، کیونکہ کراچی شہر کی میئرشپ پیپلز پارٹی نے حاصل کررکھی ہے۔
’لہذا ایم کیو ایم وفاقی حکومت کا حصہ بن کر کچھ وزارتیں لے سکتے ہیں، اس لیے ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ وہ قومی سطح پر اس طرح کے اتحاد کر کے سیاسی طاقت حاصل کرے۔ نظر یہ آتا ہے کہ تحریک انصاف کا ووٹ موجود ہے، وہ ٹوٹا نہیں ہے، اس لیے ایم کیو ایم مسلم لیگ ن کے لیے یہ اتحاد اہمیت رکھتا ہے۔‘
ن لیگ اور ایم کیو ایم اتحاد کو پیپلزپارٹی کس نظر سے دیکھتی ہے ؟
پیپلیزپارٹی کے سینئر رہنما اور قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے وی نیوز کو بتایا کہ اس اتحاد سے پیپلپزپارٹی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ وہ سجمھتے ہیں کہ یہ اچھا ہوا کہ ن لیگ نے ایم کیو ایم کے ساتھ اپنا انتخابی اتحاد بنایا ہے۔
’اس اتحاد کا تو انہیں فائدہ ہوگا کیونکہ جماعتوں نے اتحاد کیا ہے، ووٹر نے نہیں، اگر صاف شفاف الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی کراچی سے نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔‘
ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ اپنے قیام سے لے کر تین بار مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت رہی اور تینوں ادوار میں اسے آپریشن کا سامنا کرنا پڑا ہے، 2013 کے آپریشن کے دوران ایم کیو ایم مختلف دھڑوں میں بٹ گئی تھی جو رواں برس، لندن گروپ کو چھوڑ کر، ایک بار پھر متحد ہو گئے ہیں۔