الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ملکی سیاست میں ہلچل سی مچ گئی ہے۔ ماضی کی طرح ایک بار پھر تبدیلی کی ابتدا پاکستان کے چھوٹے صوبے بلوچستان سے ہونے جا رہی ہے۔
یہ سیاسی ہلچل اس لیے بھی زیادہ محسوس کی جا رہی ہے کہ بلوچستان سے ایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں کی بڑی تعداد پہلے پیپلزپارٹی اور پھر پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہونے جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں
یہ وہی جماعت ہے جس کا وجود 2018 کے عام انتخابات سے چند ماہ قبل عمل میں آیا تھا۔ اُس وقت اس جماعت کی بنیاد رکھنے والوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ صوبے کے اہم فیصلے نا صرف صوبے میں ہوں گے بلکہ بلوچستان عوامی پارٹی کو مرکزی سطح کی جماعت بنایا جائے گا مگر یہ جماعت اپنے اقتدار کے دوران ہی اندرونی اختلافات اور پسند نا پسند کی بھینٹ چڑھتے ہوئے بکھرتی چلی گئی۔
پہلے بلوچستان عوامی پارٹی میں جام کمال خان اور عبدالقدوس بزنجو کے درمیان وزارت اعلیٰ کی رسہ کشی نے جماعت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا کیونکہ اس وجہ سے پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس کے علاوہ اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے ہونے والے اتحاد کے قائم رہنے یا نہ رہنے کے معاملے پر بھی قومی اسمبلی میں موجود بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین الگ الگ سوچ رکھنے کے باعث انتشار کا شکار ہوئے۔
تاہم بکھرتی بلوچستان عوامی پارٹی کو سمیٹنے کے لیے رواں ماہ پارٹی کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں پارٹی کی صدارت سمیت دیگر اہم نوعیت کے معاملات زیر غور آئے۔
اس اجلاس میں نوابزادہ خالد مگسی بلامقابلہ پارٹی کے صدر جبکہ سینیٹر کہدہ بابر پارٹی کے ترجمان مقرر کر دیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان عوامی پارٹی ختم نہیں ہو گی، الیکشن میں سیاسی اتحاد ضرور بنائیں گے: عبدالقدوس بزنجو
اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نومنتخب صدر بلوچستان عوامی پارٹی نوابزادہ خالد مگسی کا کہنا تھا کہ اگلے عام انتخابات میں پارٹی کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ہم بلوچستان عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے اگلے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کریں گے جس سے اس پارٹی کے خاتمے کے تاثر کی نفی ہوگی۔
تاہم دوسری جانب پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں نے پہلے ہی پارٹی سے اپنی راہیں جدا کرکے ایک بار پھر قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کی جانب رخ کرلیا ہے۔
پہلے چند اہم رہنماؤں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی جن میں ظہور بلیدی، عارف محمد حسنی، سلیم کھوسہ جیسے اہم رہنما بھی شامل ہیں۔
اس کے بعد میاں نواز شریف کی 4 سال بعد وطن واپسی پر ’باپ‘ کے پروانے شمع کی نظر ہونے لگے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کل اپنے 2 روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچ رہے ہیں۔
لشکری رئیسانی کے بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ معاملات طے پا چکے
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے یہ پروانے اس دورے کے دوران مسلم لیگ ن کو پیارے ہوجائیں گے جن میں سردار عبدالرحمان کھیتران، نور محمد دومڑ، سردار مسعود لونی، محمد خان لہڑی، جبکہ وزارت اعلیٰ کی شرط پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بھی ن لیگ میں اڑان بھرنے کو تیار ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے سینیئر سیاستدان نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی سے بھی مسلم لیگ ن میں جانے کے معاملات لگ بھگ طے پا چکے ہیں۔
صادق سنجرانی اور خالد مگسی پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے، رضوان سعید
بلوچستان کے سینیئر صحافی رضوان سعید نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے حال ہی میں ہونے والے مرکزی جنرل کونسل سیشن کے بعد ایسی امید ظاہر ہورہی تھی کہ پارٹی میں رہ جانے والے رہنما ایک بار پھر بلوچستان عوامی پارٹی کو نئی سانس بخشنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس جماعت کو آنے والے انتخابات تک زندہ رکھا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اب تک کی جو صورتحال بلوچستان عوامی پارٹی کے حوالے سے سامنے آئی ہے اس میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پارٹی میں ناامیدی اور مایوسی کے ڈیرے ہیں جن کے خاتمے کی ذمہ داری چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور نو منتخب صدر خالد مگسی سمیت دیگر رہنماؤں پر آن پڑی ہے کیونکہ سال 2018 کے انتخابات میں 23 سیٹوں کے ساتھ حکومت بنانے والی اس جماعت کو اس مرتبہ اقتدار کے دائرہ کار میں آنے کے لیے کسی بڑی سیاسی جماعت کے اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔