آسٹریلوی ہائی کورٹ کے ’زندگی بدل دینے والے فیصلے‘ کے بعد قیدیوں کی رہائی

منگل 14 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آسٹریلیا میں ہائی کورٹ کی جانب سے غیر معینہ مدت تک حراست کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد درجنوں افراد امیگریشن حراست سے رہائی پا رہے ہیں۔

اگرچہ پناہ کے متلاشیوں اور پناہ گزینوں کی من مانی حراست بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن 2004 کے ایک فیصلے کے بعد سے لگاتار آسٹریلوی حکومتوں نے پناہ گزینوں کو من مانی طور پر حراست میں رکھنے کا عمل جاری رکھا ہے جسے آسٹریلیا کے ملکی قانون کے تحت قانونی قرار دیا گیا تھا۔

لیکن یہ سب کچھ 8 نومبر کو بدل گیا جب ہائی کورٹ نے اس حکومتی عمل کو غیر قانونی قرار دیا، جس کے بعد مہاجرین کے ساتھ ساتھ دیگر وجوہات کی بنا پر امیگریشن کے زیر حراست 80 افراد کو فوری طور پر کمیونٹی میں جانے کی آزادی مل گئی تھی۔

کم از کم 92 مزید افراد اسی نوعیت کی رہائی کے اہل تھے دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے مزید 300 کیسز بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

ہیومن رائٹس لا سینٹر کی ایک سینئر وکیل جوزفین لینگبین نے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ یہ ایک بہت ہی اہم فیصلہ ہے، جس کے ان لوگوں کے لیے زندگی بدلنے والے نتائج ہوں گے جو برسوں سے نظر بند ہیں، یہ جانے بغیر کہ انہیں کب رہا کیا جائے گا، یا پھر کبھی نہیں۔

’جن لوگوں نے اپنی زندگیوں کے قیمتی برس کھو دیے ہیں انہیں آخر کار اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے اور اپنے خاندانوں اور برادریوں میں واپس آنے کا موقع مل سکتا ہے۔‘

جب کہ آسٹریلیا عارضی طور پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین پروگرام کے ذریعے ہر سال ساڑھے 13 ہزار افراد کو دوبارہ آبادکاری کے لیے قبول کرتا ہے، اور دیگر تمام افراد جو دوسرے ذرائع، مثلاً انڈونیشیا سے کشتی کے ذریعے، سے آتے ہیں انہیں جیل جیسی سہولیات میں رکھا جاتا ہے۔

2013 سے آسٹریلیا نے ’آپریشن خودمختار سرحدوں‘ کو نافذ کیا ہے، جسے حکومت “فوجی قیادت میں سرحدی حفاظتی آپریشن” سے تعبیر کرتی ہے، سخت آف شور پروسیسنگ مراکز میں حراست اس پالیسی کا ایک اور بازو ہے، جس کے بارے میں آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی حیثیت کا اندازہ لگانے اور ممکنہ طور پر عارضی ویزا دینے کے لیے یہ ضروری ہے۔

تاہم، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے طویل عرصے سے یہ استدلال اپنایا ہوا ہے کہ یہ پالیسی بین الاقوامی قانون بشمول اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن، جو پناہ گزینوں کی من مانی حراست سے منع کرتے ہوئے شرط عائد کرتا ہے کہ پناہ حاصل کرنا غیر قانونی نہیں ہے، اور تشدد کے خلاف کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

ناقدین، جیسا کہ مصنف اور سابق زیر حراست بہروز بوچانی، بھی کہتے ہیں کہ پالیسی کا مقصد ایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ ممکنہ پناہ گزینوں کو آسٹریلیا میں پناہ حاصل کرنے سے پہلے ہی روکا جائے، دوسری جانب وکیل جوزفین لینگبین کے مطابق مہاجرین کو اوسطاً 708 دنوں کے لیے یا تو آسٹریلوی سرزمین پر یا ناورو جیسے دور دراز جزیروں میں غیر ملکی حراستی مراکز میں رکھا جاتا ہے۔

جوزفین لینگبین کے مطابق اس سال کے اوائل میں آسٹریلوی حکومت نے انکشاف کیا تھا کہ اس نے کسی بھی شخص کو امیگریشن حراست میں زیادہ سے زیادہ 5 ہزار 7 سو 66 دن تک رکھا تھا، جو تقریباً 16 سال کا عرصہ بنتا ہے۔‘

اس کے مقابلے میں، امریکہ پناہ گزینوں کو 55 دنوں کے لیے رکھتا ہے، جب کہ کینیڈا میں، مہاجرین کو صرف 2 ہفتے کے لیے روکا جاتا ہے، اس سے پہلے کہ ان کے ملک میں قیام کے ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں آجاتا۔

’جیل نہیں‘

ہائی کورٹ کے مقدمے کا مدعی ایک روہنگیا شخص تھا جس نے  NZYQ کا فرضی نام استعمال کیا تھا اور جسے ملک بدری کے اختیارات کی کمی کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ایک روہنگیا کے طور پر، وہ میانمار واپس نہیں جا سکتا جہاں 1980 کی دہائی میں زیادہ تر مسلم اقلیت سے ان کی شہریت چھین لی گئی تھی اور 2017 میں انہیں وحشیانہ فوجی کریک ڈاؤن میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

تاہم، متنازعہ طور پر، NZYQ کو پہلے بچوں کے جنسی جرائم کا مجرم قرار دیتے ہوئے جیل بھیج دیا گیا تھا اور اس کا ویزا منسوخ کر دیا گیا تھا، عام حالات میں، ایک غیر آسٹریلوی کو اس طرح کے سنگین جرائم کی سزا بھگتنے کے بعد ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔

لیکن چونکہ 2018 میں پیرول پر رہائی کے وقت NZYQ  کسی بھی شہریت کے بغیر تھا، آسٹریلوی حکومت اسے ملک بدر کرنے سے قاصر تھی، اس طرح NZYQ  کو ہٹائے جانے کے کوئی حقیقت پسندانہ امکان کے بغیر حراست میں رکھا گیا اور یہ غیر معینہ مدت تک کی نظر بندی تھی جسے عدالت نے آسٹریلیا کے آئین کے تحت غیر قانونی قرار دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp