سائفر کیس: عمران خان کے جیل ٹرائل کیخلاف حکم امتناع میں 20 نومبر تک توسیع

جمعرات 16 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈویژن بینچ نے ان کے جیل ٹرائل کیخلاف حکم امتناع میں 20 نومبر تک توسیع کردی۔

عمران خان کی جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت جسٹس میاں گل حسن کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا 2 رکنی ڈویژن بینچ نے کی، جس میں جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل تھیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور لیگل ٹیم کے ارکان بھی عدالت میں پیش ہوئے، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ گزشتہ سماعت پر آرڈر کے بعد جو ہوا اس سے عدالت کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ کے مطابق ٹرائل کورٹ نے حکم امتناع کے بعد بھی ساڑھے تین بجے تک سماعت جاری رکھی، وہ گزشتہ سماعت کے فوراً بعد اڈیالہ جیل پہنچے جہاں جیل ٹرائل جاری تھا، کافی دیر انتظار کے بعد انہیں اندر جانے کی اجازت ملی اس وقت تک ایک گواہ کا بیان بھی ہو چکا تھا۔

اس موقع پر اسپیشل پروسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے ڈویژن بینچ کو بتایا کہ جب ٹرائل کورٹ کو ہائیکورٹ کے حکم امتنناع کا بتایا گیا تو ٹرائل کی کارروائی روک دی گئی تھی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس عامر فاروق کا تحریر کردہ فیصلہ پڑھا، ان کا کہنا تھا کہ جسٹس عامر فاروق نے شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت مسترد کی تھی،  سنگل بینچ نے شاہ محمود قریشی کی درخواست پر فیصلے میں بھی کہا کہ اوپن ٹرائل ہونا چاہیے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے؛ اٹارنی جنرل صاحب ہم توقع کرتے ہیں کہ آپ نے ہمارا گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھا ہوگا ، ہمیں جیل ٹرائل کے نوٹیفکیشن اور سارا متعلقہ طریقہ کار بتائیں، اس بینچ کو ویسے ہی مطمئن کیا جائے جیسے سنگل بینچ کو کیا تھا۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ مذکورہ انٹرا کورٹ اپیل قابل سماعت ہی نہیں، عمران خان کی جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا چونکہ وہ اٹک جیل میں قید تھے تو اس وقت پہلے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن ہوا تھا۔

اٹارنی جنرل کے مطابق 2 اکتوبر کو سائفر کیس کا چالان جمع ہوا اور 23 اکتوبر کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی، شاہ محمود قریشی نے جیل ٹرائل کے بجائے ریگولر کورٹ میں سماعت کی استدعا کی تھی، یہ درخواست مسترد کی گئی اور ہائی کورٹ نے بھی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹائی۔

اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ ایک ملزم کا جیل ٹرائل ہو تو اسی کیس کے دوسرے ملزم کا الگ ٹرائل نہیں ہو سکتا، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انہوں پیپر بک عدالت میں جمع کرادی ہے جس میں کابینہ کی منظوری سمیت دیگر متعلقہ دستاویزات موجود ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست پر فیصلہ کے بعد شاید انٹرا کورٹ اپیل آجائے، ایسی صورت میں متعلقہ بینچ اسے دیکھ لے گا، جب عمران خان کی درخواست پر فیصلہ آیا تب وہ اٹک جیل میں تھے، وہاں سے عدالت میں پیش کرنے کی صورت میں سیکیورٹی مسائل ہوسکتے تھے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے؛ عمران خان کو اب اڈیالہ جیل منتقل کیا جاچکا ہے، صورتحال بدل چکی ہے، آپ نے یہ بتانا ہے کہ وزارت قانون کے جاری کردہ نو آبجیکشن سرٹیفیکٹ کو کس طریقہ کار کے تحت جاری کیا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس میں ہم ایسی صورتحال میں ہیں جہاں درخواست گزار یعنی عمران خان کو سزائے موت ہو سکتی ہے یا انہیں ساری زندگی جیل میں گزارنا پڑسکتی ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل مسکراتے ہوئے بولے؛ جی معلوم ہے مگر میرا نہیں خیال سزائے موت ہو، جس پر وکیل صفائی سلمان اکرم راجہ نے گرہ لگائی کہ یہ اچھے آدمی ہیں، خود کہہ رہے پروسیکیوشن میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پروسیکیوشن کی جانب سے ان کیمرا کارروائی کی استدعا کی گئی تھی، جس پر جسٹس گل حسن نے دریافت کیا کہ اس پر کیا آرڈر ہوا وہ بہت اہم ہے، عدالت نے تو کہا ہے کہ اگر حساس دستاویزات آئیں تو صرف اس حد تک ان کیمرا کارروائی ہو گی۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ جیل ٹرائل اور ٹرائل کے دوران پبلک کی عدم موجودگی دو مختلف باتیں ہیں، اس موقع پر جسٹس گل حسن بولے؛ ہم نے تو ویسے ہی سوال پوچھے تھے ،آپ نے اس کی سمری ہی بنادی،۔

اٹارنی جنرل جیل ٹرائل سے متعلق کابینہ کی منظوری کی دستاویز عدالت میں پیش نہ کرسکے تاہم ان کا مؤقف تھا کہ کابینہ کی منظوری موجود ہے، اس معاملہ پر زبان دے سکتا ہوں کہ وہ عدالت میں پیش کردی جائے گی۔

جیل ٹرائل کی کابینہ سے منظوری سے قبل 7 نومبر کو 3 جبکہ 14 نومبر کو 2 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، جس پر جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ جب تین گواہوں کے بیانات ویسی ہی صورتحال میں ریکارڈ کیے گئے جیسے فرد جرم عائد کی گئی، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ جی، وکلا کو عدالت میں جانے کی اجازت تھی۔

اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ سائفر کیس میں جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے،  کورٹ روم چھوٹا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کم افراد کی گنجائش کے باعث وہ کلوز ٹرائل ہے، اب جیل میں عدالتی کارروائی اور ٹرائل کے لیے پہلے کی نسبت بڑا کمرہ مل گیا ہے۔

اس موقع پر جسٹس گل حسن نے کہا کہ ڈویژن بینچ آئندہ پیر یعنی 20 نومبرکو 11 بجے سماعت کر کے اس کیس کی کارروائی مکمل کرے گا، جس کے بعد سلمان اکرم راجہ کی جانب سے سائفر کیس میں عمران خان کے جیل ٹرائل کیخلاف حکم امتناع میں توسیع کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 20 نومبر تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp