نابالغ بچے کی غلط ڈرائیونگ: افنان شفقت جیل جانے سے بچ گیا تو پھر کیا ہوگا؟

جمعرات 16 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

13 نومبر کو ڈی ایچ اے لاہور میں ایک 14 سالہ نابالغ ڈرائیور افنان شفقت نے غلط ڈرائیونگ کرتے ہوئے 6 انسانی زندگیوں کے چراغ گل کیے جن میں 2 معصوم بچے بھی شامل تھے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ٹریفک پولیس مختلف اوقات میں نابالغ بچوں کی ڈرائیونگ کے خلاف مہمات چلاتی رہتی ہے لیکن اثر و رسوخ اور تعلقات کی بنیاد پر اس مسئلے کی مکمل بیخ کنی ممکن نہیں ہو پاتی یہی وجہ ہے کہ یہ نابالغ ڈرائیور ہر جگہ انسانی زندگیوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔

اس معاملے پر قانون کیا کہتا ہے، اسی سلسلے میں وی نیوز نے قانونی ماہرین سے ان کی آراء جاننے کی کوشش کی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق افنان شفقت نابالغ ہونے کے وجہ سے شاید جیل کی سزا سے تو بچ جائے لیکن دیت کا قانون ان پر نافذ العمل ہو گا۔ واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے اس سال اگست میں دیت کی کم سے کم رقم 67 لاکھ 57 ہزار 902 روپے مقرر کی تھی۔

جی ایم چوہدری ایڈووکیٹ

سپریم کورٹ کے وکیل جی ایم چوہدری نے وی نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس ٹریفک حادثے پر دفعہ 320 کا اطلاق ہوگا جس کے تحت ملزم کو 10 سال قید اور دیت کی سزا ہو سکتی ہے یا پھر دفعہ 321 جس کے تحت صرف دیت کی سزا ہے۔ جی ایم چوہدری نے کہا کہ قانون کے مطابق کوئی نابالغ شخص ڈرائیونگ نہیں کر سکتا اور بغیر لائسنس گاڑی چلاتے ہوئے مہلک حادثے کا باعث بننا سیدھا سیدھا قتل ہے۔ اس مخصوص واقعے میں اعانتِ جرم کے قانون کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں نے یعنی والدین نے ایک نابالغ بچے کو گاڑی چلانے کے لیے دی وہ اس جرم میں معاون یا اعانت جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا ملزم افنان شفقت ایک نابالغ ملزم ہے اور نابالغ ملزمان سے متعلق قانون کے مطابق انہیں عام جیل کے بجائے نابالغ بچوں کی جیل میں رکھا جاتا ہے اور ان کو ضمانت پر رہا بھی کیا جا سکتا ہے۔

افضل جدون ایڈووکیٹ

افضل جدون ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حادثے پر دفعہ 322 کا اطلاق ہوگا جو قتل بالسبب کے زمرے میں آتی ہے اور ناقابلِ ضمانت ہے لیکن چونکہ یہ بچہ نابالغ ہے اس لیے قانونی طور پر ضمانت ملنا اس کا استحقاق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غلط اور تیز رفتار ڈرائیونگ سے اگر کسی کی ہلاکت ہوتی ہے تو اس پر 2 قانونی دفعات کا اطلاق ہوتا ہے۔

ایک دفعہ 320 جو قتل خطاء سے متعلق ہے لیکن یہ سیکشن تب لاگو ہوگا جب ملزم کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو، دوسرا سیکشن 322 ہے جو قتل بالسبب سے متعلق ہے اور یہ زیادہ سنگین اور ناقابلِ ضمانت ہے لیکن چونکہ ملزم نابالغ ہے اس لیے اس کو ضمانت مل جائے گی اور اس کی سزا دیت ہے۔

’نابالغ ملزمان کے مقدمات کی شنوائی کے لیے الگ سے عدالتیں ہوتی ہیں اور ضمانت کے قانون میں خواتین، بوڑھے اور بچوں کے لیے رعایت ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ایسے مقدمات میں اعانت جرم کے قانون کا اطلاق کیا جا سکتا ہے کہ والدین نے نابالغ بچے کو گاڑی کیوں دی لیکن اس کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ عدالت کے سامنے ملزم اور اعانت جرم کرنے والے افراد کا ایک ارداہ اور ایک نیت کو ثابت کرنا پڑتا ہے جو کہ تقریبا ناممکن کام ہے۔

اخلاقی طور پہ ایک نابالغ بچے کو گاڑی دے کر سڑک پہ بھجوانا ایک برائی ہے لیکن قانونی طور پہ اس کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ والدین عدالت میں بیان دے دیں گے کہ بچہ ان کی مرضی کے بغیر گاڑی لے کر نکلا تھا۔ اب ایک ارادہ اور ایک نیت کو ثابت کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

زوہیب گیلانی

راولپنڈی ٹریفک پولیس کے پی آر او زوہیب گیلانی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹریفک پولیس اس سلسلے میں اپنی ذمے داری پوری کرنے کی کوشش کرتی ہے اور پچھلے 6 سے 8 مہینوں میں ہم نے کم عمر ڈرائیورز کی 4 سے 5 ہزار موٹر سائیکلیں پولیس لائن میں بند کی ہیں، جن میں گاڑیاں بھی شامل ہیں اور پھر ان کے والدین سے ہم بیانِ حلفی لیتے ہیں کہ یہ بچہ آئندہ روڈ پر موٹر سائیکل یا گاڑی نہیں چلائے گا۔

ٹریفک پولیس اس سلسلے میں اپنی ذمے داری پوری کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن مسئلہ یکطرفہ کوشش سے حل نہیں ہوگا۔ کم عمر بچوں کے والدین کو ذمے داری لینی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ کافی کم عمر ڈرائیوروں کی وجہ سے سڑک پر حادثات ہوتے ہیں اور پھر ہم ان کے خلاف ایف آئی آر دیتے ہیں لیکن قانون میں چونکہ نابالغ بچوں کی سزا کم ہے اس لیے وہ سزا سے بچ جاتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp