سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا عمل درآمد کیس کی 15 نومبر کی عدالتی کارروائی کا حکم نامہ جاری کردیا ہے جس میں عدالت نے 9 مئی کے واقعات کا حوالہ دینے کے علاوہ اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ عدالت عظمیٰ نے ماضی میں سازباز سے درخواستیں مقرر نہیں کیں تاہم اب ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔
حکم نامے میں سپریم کورٹ نے تقریباً 5 سال تک فیض آباد دھرنا کیس مقرر نہ کرنے پر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے قرار دیا کہ عدالت خود پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اتنے سال کیس مقرر نہ ہونے اور ہیر پھیر کرنے کی ذمہ داری تسلیم کرتی ہے اور قرار دیتی ہے کہ ضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔
عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں دائر ہوئی جنہیں سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا جس کے باعث عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا۔ فیض آباد دھرنا فیصلے کے تناظر میں نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور نہ ہی پر تشدد احتجاج پر احتساب ہوا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سچائی انسان کو آزاد کرتی ہے اور اداروں کو مضبوط بناتی ہے اور پاکستانی عوام سچ سے کم کسی چیز کے مستحق نہیں لہٰذا لازم ہے کہ ہر ادارہ شفافیت اور ذمہ داری سے کام کرے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پرتشدد واقعات کی نشاندہی اور مستقبل کے خدشات کو واضح کر رہا تھا جسے مختلف حکومتوں نے نظر انداز کیا اور فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے سے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے حکم نامے میں اپنی آبزرویشنز دیں کہ ماضی کے پرتشدد واقعات کے لیے نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور نہ ہی کوئی کارروائی ہو سکی جس کے باعث ذاتی مقاصد کے لیے پرتشدد واقعات کرنا معمول بنا جس سے آزاد عدلیہ اور بہتر پاکستان کے لیے جد و جہد کرنے والے متاثرین کے ساتھ بھی ناانصافی ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قوم نے ناانصافی کا خمیازہ 9 مئی کے واقعات کی صورت بھگتا۔
سپریم کورٹ نے نے عدالت کے متعلقہ ایڈیشنل رجسٹرار کو فیض آباد دھرنا فیصلے پر نظرثانی درخواستیں مقرر نہ ہونے پر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔
عدالت کے حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے پر تمام نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر نمٹائی جاچکی ہیں تاہم اب یہ دیکھنا ہوگا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی جائے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ فیصلے کے وقت قائم حکومت اور الیکشن کمیشن بدل چکے ہیں لہٰذا موجودہ حکام کو عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں۔ حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیشن بنا دیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ کمیشن 2 ماہ کی مقررہ مدت میں کارروائی مکمل کرلے گا۔
فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درآمد کیس کی اگلی سماعت 22 جنوری 2024 کو مقرر کی گئی۔