مقتول صحافی ارشد شریف کی والدہ نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ ان کے بیٹے کے قتل پر لیے گئے سو موٹو کیس سماعت کے لیے جلد مقرر کیا جائے۔
اپنی درخواست میں کینیا میں قتل ہونے والے سیبیئر صحافی ارشد شریف کی والدہ نے کہا کہ مذکورہ کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہونے کے باعث تفتیش تعطل کا شکار ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ جس طرح معاملات چل رہے ہیں اس سے مقتول کے لواحقین میں مایوسی پائی جاتی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں کیس آخری بار 13 جون کو سنا گیا تھا لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ اس کی سماعت رواں ماہ میں ہی مقرر کی جائے۔
مقتول صحافی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
ارشد شریف 20 اگست 2022 کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی پہنچے تھے اور 23 اکتوبر کو فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ 49 سالہ صحافی اگست میں گرفتاری سے بچنے کے لیے پاکستان سے فرار ہوئے تھے جب ان پر عمران خان کے سابق ساتھی شہباز گل کے ساتھ انٹرویو کے دوران بغاوت کے الزامات سمیت کئی مقدمات درج کیے گئے تھے۔
نیروبی پہنچنے کے بعد ارشد شریف کراچی کے تاجر وقار احمد کے ریور سائیڈ پینٹ ہاؤس میں ٹھہرے تھے۔ ارشد شریف کے قتل کے وقت وقار احمد کی گاڑی ان کا بھائی خرم احمد چلا رہا تھا۔ معروف صحافی کو اموڈمپ کیونیا ٹریننگ کیمپ سے باہر نیروبی کاؤنٹی لے جایا جارہا تھا۔
ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا تھا کہ ارشد شریف کو پولیس نے ’غلط شناخت‘ کے معاملے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تاہم بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل کے ارد گرد کے واقعات کو دوبارہ ترتیب دیا جس میں بتایا گیا کہ شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں موجود ایک شخص نے پیرا ملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی تھی۔
اس کے بعد حکومت پاکستان نے ایک ٹیم تشکیل دی تھی جس نے اس قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا کا سفر کیا۔