ٹیک فرم اسٹیبلٹی اے آئی کے ایک سینیئر ایگزیکٹو اس بات کے پیش نظر استعفیٰ دے دیا ہے کہ ان کی کمپنی اپنے مشینی سوفٹ ویئر کے لیے کسی بھی کاپی رائٹ والے کام کو استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتی۔
بی بی سی کے مطابق ایڈ نیوٹن ریکس برطانیہ اور امریکا میں قائم اس کمپنی میں آڈیو کے سربراہ تھے اور ان کا مؤقف ہے کہ کسی بھی اے آئی ( مصنوعی ذہانت) ڈویلپر کے لیے رضامندی کے بغیر تخلیقی کام استعمال کرنا ایک استحصال ہے۔
لیکن اسٹیبلٹی سمیت بہت سی بڑی اے آئی فرموں کا استدلال ہے کہ کاپی رائٹ کا مواد لینا ’منصفانہ استعمال‘ ہے۔
کاپی رائٹ کے قوانین کے ’منصفانہ استعمال‘ سے استثنیٰ کا مطلب ہے کہ اصل مواد کے مالکان کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
یو ایس کاپی رائٹ آفس فی الحال جنریٹو اے آئی اور پالیسی کے مسائل کے بارے میں ایک مطالعہ کر رہا ہے۔
نیوٹن-ریکس نے زور دے کر کہا کہ وہ ان تمام اے آئی فرموں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ایسا کرتی ہیں اور ان میں سے اکثریت کا یہی طرز عمل ہے۔
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں اپنے سابق اسٹاف ممبر کو جواب دیتے ہوئےاسٹیبلٹی کے بانی عماد مصدق نے کہا کہ فرم کا خیال ہے کہ منصفانہ استعمال تخلیقی ترقی کو سپورٹ کرتا ہے۔
اے آئی ٹولز کو بھاری مقدار میں ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے تربیت دی جاتی ہے۔ ایسے ڈیٹا میں سے اکثر کو بغیر رضامندی ہی انٹرنیٹ سے لے لیا جاتا ہے۔
رواں سال کے آغاز میں اسٹیبلٹی اے آئی کو گیٹی امیج آرکائیو سے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسٹیبلٹی کے خلاف دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس نے گیٹی امیج کی ایک کروڑ 20 لاکھ تصاویر چوری کرکے استعمال کیا ہے۔
واضح رہے کہ بی بی سی اور دی گارجین سمیت کچھ خبر رساں اداروں نے انٹرنیٹ سے اپنا ڈیٹا چوری ہونے سے بچانے کی غرض سے اے آئی فرموں کو کو بلاک کردیا ہے۔