انتظار حسین مرحوم نے اپنی یادداشتوں ’چراغوں کا دھواں‘ میں جس لاہور کی عکاسی کی ہے، خوش قسمتی سے میں نے اس لاہور کی آخری تصویر دیکھ رکھی ہے بلکہ برسوں تک اس تصویر کا حصہ رہا ہوں۔ تب بھی لاہور کافی حد تک صاف ستھرا تھا، اور اس میں زندگی ویسی ہی زندہ دل تھی جیسی انتظار حسین نے دکھائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’میں نے اس شہر کے رنگوں کو اسی سڑک ( مال روڈ) کے واسطے سے پہچانا ہے۔ میں گزرے برسوں کو یاد کرتا ہوں اور اس وقت کو دھیان میں لاتا ہوں، جب مال روڈ بہت کشادہ نہ ہوتے ہوئے بھی کشادہ اور پرسکون نظر آتی تھی۔ دائیں بائیں چوڑے فٹ پاتھ، بلند و بالا درخت اور سبزے کے تختے، بیچ بیچ میں پھولوں کی کیاریاں، سڑک پر کاریں کم اور تانگے زیادہ۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کوئی بس نمودار ہوتی۔ اومنی بس، ڈبل ڈیکر اور ہاں سائیکلیں۔۔۔۔
اور تانگہ وہ اس شہر میں ابھی معزز سواری سمجھا جاتا تھا۔ شرفا ٹھسے سے تانگہ کی پچھلی نشست پر بیٹھے ہیں اور مال سے گزر رہے ہیں۔۔۔۔۔ مگر وہ معززین بھی تو تھے جو مال پر پیدل چلنا پسند کرتے تھے۔۔۔۔ ان دنوں مال پر بھی اتنے پتے جھڑتے تھے کہ ساری سڑک پر پیلے پتوں کا فرش بچھا نظر آتا تھا۔ وقفے وقفے سے کوئی کار تیزی سے گزرتی تو یہ پتے منتشر ہوجاتے اور پھر جیسے دوڑتی ہوئی کار کا تعاقب کر رہے ہیںٗ۔
انتظار حسین ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’اصل میں پاکستان میں ابھی سائیکل کا زمانہ چل رہا تھا۔ ٹی ہاؤس میں جو یار آتے تھے ان میں کچھ سائیکل سوار تھے اور کچھ پیدل تھے۔ اور پیادہ پائی کا چلن اتنا تھا کہ سائیکل موجود ہے مگر پیدل چل رہے ہیں۔ جب ہم سڑکیں ناپنا شروع کرتے تھے تو میں اپنی سائیکل ٹی ہاؤس کے سٹینڈ پر چھوڑ دیتا تھا مگر شیخ (صلاح الدین) صاحب کی سائیکل ان کے ساتھ رہتی تھی۔ جتنا وہ چلتے تھے، اتنا ہی ان کی سائیکل ان کے ساتھ چلتی تھی۔ ان کی سائیکل ان کی پیادہ پائی کا جز بن گئی تھی۔ اور ایک ہمارے قیوم (نظر) صاحب کی سائیکل تھی جو ان کی شخصیت کا حصہ بن گئی تھی۔ اس وقت کسے اندازہ تھا کہ زمانہ ان سب سائیکلوں کو کھا جائے گا‘۔
انتظار صاحب نے پچاس کی دہائی کے اواخر والے لاہور کا ذکر کیا ہے، لیکن میں جس لاہور میں پلا بڑھا، وہ یہی پینتیس، چالیس برس پہلے کا لاہور تھا۔ مال روڈ سمیت شہر بھر کی سڑکوں کے ارد گرد بلند و بالا درخت اب بھی موجود تھے، سبزے کے تختے بھی تھے۔ اب بھی سائیکلیں نسبتاً بڑی تعداد میں چلا کرتی تھیں، تانگے بھی شہر کی بعض سڑکوں پر چلتے تھے، لوگوں کی ایک تعداد اب بھی انتظار حسین اور ان کے یاروں کی طرح پیدل چلا کرتی تھی۔ زندگی میں اب بھی زندہ دلی بلکہ شوخی موجود تھی۔
آٹھ برس قبل اسلام آباد منتقل ہوا، اس وقت تک لاہور کی فضا میں آلودگی نسبتاً بڑھ چکی تھی، لیکن یہ شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل نہیں ہوا تھا۔ پھر اسموگ نے اچانک اس شہر پر غلبہ پا لیا۔
پچھلے چند برسوں سے کہا جارہا ہے کہ یہ شہر بھارتی دارالحکومت دہلی کی طرح زندگی کے قابل نہیں رہا۔ محکمہ صحت نومبر کے مہینے میں اسموگ کے سبب بیماریاں غیر معمولی طور پر بڑھنے کی خبر دیتا ہے اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ اسموگ سے نمٹنے کے لیے کافی فکر مند نظر آتے رہے لیکن آخری نتیجے میں بے بس پائے گئے۔
موجودہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اپنے پیش روؤں سے زیادہ فکر مند دکھائی دیتے ہیں، انھوں نے اسموگ سے نمٹنے کے لیے جو حکمت عملی تیار کی ہے، اس کا کلیدی نکتہ مختلف اضلاع میں بعض ایام میں تعلیمی ادارے، دکانیں اور مارکیٹیں بند کرنے کا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر سماعت ہے، جسٹس شاہد کریم نے کچھ سفارشات تیار کرائی ہیں، جن میں اہم ترین یہاں سائیکلنگ کا فروغ ہے۔ معزز جج نے ریمارکس دیتے ہوئے فرمایا کہ برطانیہ میں ججز آج بھی سائیکلوں پر عدالتوں میں آتے ہیں۔
مسٹر جسٹس شاہد کریم کے ریمارکس سن کر جی بہت خوش ہوا کہ اب لاہور سمیت کم از کم پنجاب کے شہروں میں پھر سے سائیکلوں کا کلچر نظر آئے گا۔ یہاں کے تمام ججز اپنی عدالتوں میں، اور تمام سرکاری افسران اپنے دفتروں میں سائیکلوں پر آیا کریں گے۔ ان کی دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی سائیکلوں پر آیا جایا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ سائیکلیں چلانے کے لیے جسم میں توانائی چاہیے ہوگی، اس کا سامان کیا جائے گا، یوں زندگی صحت مند ہوگی اور لوگ مضبوط ، سڈول ہوں گے۔
جب ججز اور بیورو کریٹس سائیکلوں پر آنا جانا شروع ہوں گے تو اگلے دن کا سورج چڑھنے سے پہلے وہ آلودگی پیدا کرنے والے تمام ذرائع کا منہ سختی سے بند کردیں گے، تمام سڑکیں اور راستے صاف اور ہموار کردیے جائیں گے تاکہ سائیکل سوار ججز اور افسران کو سڑکوں میں موجود کھڈوں سے واسطہ نہ پڑے، اورناہموار راستے ان کے مزاج کو خراب نہ کریں۔ یوں باقی لوگ بھی سائیکلوں کی گھنٹیاں ٹرن ٹرن بجاتے ادھر سے ادھر آ جا رہے ہوں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ جسٹس شاہد کریم اور ان کے ساتھی ججز سائیکلوں پر بیٹھنے کو تیار ہوں گے؟ کیا وہ بڑے، چھوٹے سرکاری افسران کو بھی اس کے لیے آمادہ کرسکیں گے؟
حکومت اور بیوروکریسی اسموگ کم کرنے کے لیے لوگوں کو گھروں میں بند کرنے کی کوششیں کر رہی ہے جبکہ جسٹس شاہد کریم لوگوں کو سائیکلوں پر بٹھا کر باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک معزز جج ایسا کر رہے ہیں، تو ہم یقین کرلیتے ہیں کہ وہ اپنی اس کوشش میں ضرور کامیاب ہوں گے۔
ایسا ہوجائے تو کیا نظارہ ہو۔ اس کے نتیجے میں اسموگ میں کافی حد تک کمی واقع ہوگی اور لوگوں کی ذاتی معیشت پر بھی اچھا اثر پڑے گا کہ پچھلے پانچ برسوں میں پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے لوگوں کی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ پیٹرول کے کاروبار سے جڑے مافیاز مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے دندنا رہے ہیں۔ اور ہماری حکومتیں اپنی تمام تر ناتوانی کے باوجود ان مافیاز کے اشارہ ابرو پر ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ رہی ہیں۔
سائیکلنگ کے فروغ اور ماحول سے آلودگی کا خاتمہ، یہ دونوں کام ساتھ ساتھ ہوں تو مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ البتہ کچھ دیگر کام کرنا بھی ضروری ہیں۔ تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز وغیرہ بند کرنے سے کام نہیں چلے گا، نہ ہی گھروں میں بیٹھ کر دفتر کا کام کرنے کی تدبیر کارگر ثابت ہوگی۔ مصنوعی بارشیں برسا کر اسموگ ختم کرنا بھی دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوگا۔
اہم ترین کام یہ بھی ہے کہ سائیکلنگ کے فروغ، ٹرانسپورٹ کی بڑی گاڑیاں چلانے کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں، کارخانوں کو فی الفورشہروں سے باہر نکالا جائے اور صنعتی آلودگی کو قابو میں رکھنے کے لیے الگ سے حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ دنیا میں بہت سے ممالک اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اگرچہ کارخانوں کو شہروں سے خارج کرنے کا کام طویل المدتی منصوبہ ہوگا لیکن یہ کام کیے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ اس کام کو مزید لٹکایا گیا تو آلودگی کا عفریت مزید بڑا اور خطرناک بنتا چلا جائے گا۔
ہماری حکومتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آلودگی سے عالمی سطح پر سالانہ 65 لاکھ جبکہ پاکستان میں سالانہ 22 ہزار اموات ہو رہی ہیں۔ اچھی حکومتیں اپنے شہریوں کی صحت کے تحفظ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں۔ اچھے حکمران ثابت کرتے ہیں کہ وہ شہریوں کی صحت افزائی ہی کے لیے حکومتوں میں آتے ہیں۔ وہ شہریوں کی صحت کا پورا حساب کتاب رکھتے ہیں۔ کاش! ہمارے ہاں بھی یہ حساب کتاب ہونے لگے۔