غزہ کی پٹی میں رضاکار ڈاکٹروں کو زیادہ ڈیوٹی، طبی سامان کی کمی اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے خاتمے کا سامنا ہے، لیکن پھر بھی وہاں موجود زخمیوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کرنے میں مصروف ہیں۔ مجموعی طور پر تمام ڈاکٹروں کا یہی کہنا ہے کہ ہار ماننا کوئی آپشن نہیں ہے جہاں تک ممکن ہوگا ہم اپنے فرض کی ادائیگی کو یقینی بنائیں گے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی ازہر یونیورسٹی کے میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد عبدالرحمٰن ابو شویش کو اتنی جلدی فرض کی ادائیگی کی امید نہیں تھی لیکن انکا کہنا ہے کہ نصیرات پناہ گزین کیمپ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتا ہوں، 10 اکتوبر کو الاقصیٰ شہدا اسپتال کے شعبہ سرجیکل میں رضاکارانہ طور پر کام کرنا شروع کیا۔
عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ اتنی جلدی میں اس طرح کے فیصلے کر سکوں کا جو مجھے از خود کرنے پڑ رہے تھے، کہ آیا کسی زخمی شخص کو اپنے اعضاء مکمل یا جزوی کٹوانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے مئی 2021 کی جنگ میں جو چوٹیں دیکھی تھیں وہ کم و بیش ایک جیسی لگ رہی تھیں۔ لیکن اس بار، میں نے بہت سی مختلف قسمیں دیکھی ہیں، جلے، کٹے ہوئے اعضاء، گہرے زخم اور مختلف قسم کی حیران کر دینے والی چوٹیں۔
اس پٹی کے تقریباً دو تہائی اسپتالوں 35 میں سے 26 نے 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اس علاقے پر اسرائیلی افواج کی کئی ہفتوں سے جاری بمباری کے بعد کام کرنا بند کر دیا تھا۔ کم از کم 15 لاکھ فلسطینی اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ بڑے پیمانے پر فضائی اور غزہ پر زمینی حملے نے اس کا زیادہ تر بنیادی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے، جس میں آدھے سے زیادہ گھر بھی شامل ہیں۔
مزید برآں، اسرائیل کی طرف سے انکلیو پر مکمل محاصرے کا مطلب ہے کہ ہسپتالوں میں ایندھن، بجلی اور صاف پانی ختم ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیں
عبد الرحمٰن ابو شویش نے کہا کہ ہمارے پاس طبی سامان بہت محدود ہے، جب اسرائیلی حملے کے نتیجے میں درجنوں زخمی لوگ اسپتال آتے ہیں، تو ہم اکثر ان سب کا ایک ساتھ علاج نہیں کر پاتے کیونکہ ہمیں اپنے آلات کو جراثیم سے پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے پاس کافی نہیں ہیں۔
’وسائل کی کمی کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر اپنے مریضوں کو زندہ رکھنے کے لیے درکار کم سے کم وسائل میں کچھ زیادہ کر سکتے ہیں۔‘
ابو شویش نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک زخمی شخص کے جسم سے تمام چھینٹے ہٹانے سے قاصر ہیں، صرف وہ ٹکڑے جو ان کی جان کو خطرہ ہیں وہی ہٹاتے ہیں جو کہ ان کے لیے خطرناک ہے۔ لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ جنگ ختم ہونے کے بعد وہ فالو اپ کر سکتے ہیں۔
نوجوان ڈاکٹر نے مزید بتایا کہ جرمنی جانے کی تیاری میں جرمن زبان کی تعلیم حاصل کی تھی۔ جنگ سے پہلے بڑے خواب دیکھے تھے لیکن اب میں صرف اپنے اور اپنے خاندان کے زندہ رہنے کی امید رکھتا ہوں۔
غزہ شہر کے جنوب میں اسرائیلی گولہ باری میں خاندان کے تباہ ہوجانے کے بعد محمد ابو سالم نے 19 اکتوبر کو الاقصیٰ شہدا اسپتال میں رضاکارانہ طور پر کام کرنا شروع کیا اور اس کے بعد سے اپنے خاندان کو صرف 2 بار دیکھا ہے۔
غزہ شہر کی اسلامی یونیورسٹی میں فزیو تھراپی میں مہارت حاصل کرنے والے صرف 25 سال کے ابو سالم نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کا اسرائیلی قتل عام روزمرہ کی حقیقت بن چکا ہے۔
’میں جانتا تھا کہ عام طور پر اسپتال میں کام کرنا مشکل ہوگا، لیکن جنگ کے دوران اسپتال میں کام کرنا بالکل نیا تجربہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ نہیں جانتے کہ کل کیا ہونے والا ہے، زندہ رہیں گے یا مریں گے۔ لیکن ہار ماننا کوئی آپشن نہیں ہے۔
آلا کسب نے قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی سے اپنی طبی تعلیم مکمل کی اور گزشتہ فروری میں اپنے آبائی شہر دیر البلاح واپس آگئی۔
انہوں نے کہا کہ میرا یہ خواب تھا کہ میں اپنا میڈیکل انٹرن شپ کا سال مکمل کروں، پھر غزہ واپس جانے سے پہلے اسپیشلائزنگ کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے بیرون ملک سفر کروں۔ لیکن پچھلے 2 ہفتوں میں جو کچھ دیکھا ہے اور رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے بعد ڈاکٹر بننے کے لیے مزید پرعزم ہو چکی ہوں۔
آلاکساب نے کہا کہ اسپتال جلد ہی مکمل طور پر غیر فعال ہونے والا ہے، کیونکہ کہ سرجری کے کافی آلات، ایندھن، طبی سامان یا عملے کے بغیر، مزید مریضوں کا علاج کرنا ممکن نہیں ہوگا۔