سائفر کیس کی کارروائی روکنے کے حکم میں توسیع، چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل ہوگی

پیر 20 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ سائفر کیس کی کارروائی روکنے کے حکم میں کل تک توسیع کر دی گئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کیس کی سماعت کل صبح 11 بجے کرے گی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین کی تعیناتی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔

عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان کا ٹرائل روکنے کا حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 20 نومبر تک حکم امتناع جاری کیا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا پیش ہوئے۔

سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ جج کی تعیناتی کا معاملہ بھی بہت اہم ہے عدالت کے سامنے کچھ حقائق رکھوں گا، اٹارنی جنرل نے جو دستاویزات عدالت کے سامنے رکھیں ان کے مطابق جج کی تعیناتی کا پراسس ہائیکورٹ سے شروع ہوا۔ اسلام آباد میں سیکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں۔ حکومت نے ایک مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دیدیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس عدالت کے سامنے ریکارڈ پیش کیا تھا، ہم نے دستاویزات دیکھے ہیں تعیناتی کے لیے کارروائی کا آغاز اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہوا۔ وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہمیں تو وہ دستاویزات بھی نہیں دکھائے گئے؟

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ذہن میں بھی یہی سوال تھا لیکن دستاویزات دیکھنے کے بعد صورتحال واضح ہوئی، آپ پہلے اٹارنی جنرل کی اپیل ناقابلِ سماعت ہونے کے اعتراض کا جواب دیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سیکیورٹی کے نام پر ایک بہانے سے چیئرمین پی ٹی آئی کو کسی عدالت پیش نہیں کیا جا رہا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے جمع کردہ دستاویزات میں سی سی پی او کا ایک نوٹ بھی ہے، سی سی پی او نے وزارت داخلہ کو رپورٹ کیا جس کی بنیاد پر وزارت قانون نے یہ نوٹیفکیشن جاری کردیا، وزارت قانون نے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیکیورٹی خطرات ہیں جس کی وجہ سے جیل ٹرائل کیا جائے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سیکشن 9 کے تحت جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جا سکتا، اِس سیکشن کے تحت عدالت کا وینیو تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن جیل ٹرائل کا ذکر نہیں ہے۔ یہ سزائے موت یا عمر قید کا کیس ہے اس میں سختی سے قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے استفسار کیا کہ اگر سیکیورٹی خدشات ہوں تو حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ حکومت کو یہ معاملہ متعلقہ جج کے سامنے رکھنا چاہئے تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ حکومت جیل ٹرائل کے لیے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جیل ٹرائل کی درخواست آئے تو عدالت نوٹس کرکے دوسرے فریق کو سننے کے بعد فیصلہ کر سکتی ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے حکم دیا کہ راجا صاحب، آپ اپیل قابلِ سماعت ہونے پر اپنے دلائل دیں۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جج کی جانب سے 2 اکتوبر کو لکھا گیا خط بھی پڑھنا چاہتا ہوں جو بہت اہم ہے، جج نے اس خط میں پوچھا کہ کیا ملزم کو پیش کرنے میں کوئی مشکلات تو نہیں؟ جج اس خط کے ذریعے پوچھ رہا کہ آپ مناسب سمجھیں تو جیل ٹرائل کے لیے تیار ہوں۔ جج اپنے خط میں کہہ رہے تھے کہ جو آپ کا حکم وہی میری رضا، وزارت قانون کا 29 اگست کا جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن درست نہیں، یہ بھی کنفیوژن ہے کہ جیل ٹرائل کا مقصد کیا ہے؟ ایسا سیکیورٹی خدشات کے باعث ہے یا حساس کیس سے پبلک کو اس سے دور رکھنا مقصد ہے، اوریجنل آرڈر کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل قابلِ سماعت ہوتی ہے، سیکشن 9 سیشن عدالتوں کے وینیوز تبدیل کرنے سے متعلق ہے، اِس سیکشن میں خصوصی عدالتوں کا وینیو تبدیل کرنے کا ذکر نہیں ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ جج نے سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے جو خط لکھا ان کے پاس کیا معلومات تھیں؟ کیا سپیشل رپورٹس ان کے ساتھ شیئر کی گئی تھیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ بات عمومی طور پر پبلک ڈومین میں تھی اور عدالت کو بھی اس کا علم تھا، ریمانڈ کے لیے بھی جج کو جیل جانا پڑا تو انہیں اس بات کا احساس تھا۔ اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ تھینک یو مسٹر اٹارنی جنرل۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جیل سماعت کے نوٹیفیکیشنز جاری ہوتے رہے اور جج تیزی سے کاروائی آگے بڑھاتے رہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس اہم ترین معاملے میں ہماری درخواست پر کئی ہفتوں کے لیے فیصلہ محفوظ رکھا، کہتے ہیں کہ جیل میں اوپن ٹرائل ہورہا ہے، یہ کیسا اوپن ٹرائل ہے جس میں شاہ محمود قریشی کے بچوں کو بیٹھنے کی اجازت نہیں، ٹرائل کورٹ کے جج نے کہا کہ حکم امتناع نہیں اس لیے وہ کارروائی جاری رکھیں گے، ہر سماعت پر 3 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں، 15 نومبر تک ٹرائل کورٹ میں ہونے والی تمام عدالتی کارروائی غیر قانونی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں نہیں پتا کہ یہ کیس کیا ہے اور نہ ہم جاننا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ یہ عدالت فرد جرم کے معاملے پر بھی نہیں جانا چاہتی، ہم صرف جیل میں ٹرائل اور جج کی تعیناتی کے معاملے پر قانونی نکات دیکھ رہے ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے استدعا کی کہ اگر جیل ٹرائل بھی ہو تو کم از کم جج کو تبدیل کیا جائے، عدالت نے نوٹ کیا ہے کہ وزارت قانون نے 25 ستمبر کو جاری نوٹیفکیشن میں لفظ جیل نکال دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp