پھر کوئی شہر طرب یاد آیا!

منگل 21 نومبر 2023
author image

اسامہ یوسف

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارے بزرگ بتایا کرتے تھے کہ پنجاب کی تقسیم نہیں ہوئی، اسے بے رحم طریقے سے چیرا گیا۔ بلکہ ہمارے ایک عزیز دوست کے بقول پنجاب کی ‘ونڈ’ ہوئی ہے۔ یہ لفظ اپنے اندر ایک پورا سیاق و سباق رکھتا ہے یعنی کہ زمین کو انسانوں پر مقدم رکھتے ہوئے نقشے پر بے رحم لکیر کھینچ دی گی جس کے نیچے تقریبا 10 لاکھ لوگ کچلے گئے۔

اس ہجرت پر لکھی گئی تاریخی کتابوں اور ادبی فن پاروں کی تعداد بھی سیکنڑوں میں ہے جن میں کسی بشن سنگھ کی چیخ و پکار ٹوبہ ٹیک سنگھ کی سرحد پر دم توڑ گئی۔ انتظار حسین کی اجڑی ہوئی بستی میں کوئی ذاکر اپنی ننھی آنکھوں سے موت کا رقص دیکھ رہا ہے۔ کسی باپ کے سامنے بیٹی سکینہ کی برہنہ لاش پڑی ہے۔ کہیں کرشن چندر کے غدار اور بیدی کی لاجو دکھائی دیتی ہے۔

نصف صدی بعد بھی اس منظر کا تصور کرتے ہوئے خوف آتا ہے کہ میلوں تک انسانوں کی چیخ و پکار پھیلی ہو، ہر شخص کا کوئی اپنا لاپتہ ہو اور ہر کسی پر موت کا خوف طاری ہو۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں گندم و چاول کی جگہ انسانی سروں کی فصل اگی ہو اور امرتسر سے لاہور تک چند میل کا فیصلہ نہ ختم ہو جانے والا سفر بن جائے۔

اُس خرابے کا تصور کس قدر ہولناک ہے جہاں مسیحا بھی بے موت مارے جائیں۔ کہیں خاکسار و احرار کا کوئی جوان کسی مشرک خاندان کو بچاتے ہوئے خود بلوائیوں کا نشانہ بن جائے، کوئی خدائی خدمتگار خون کی ہولی میں زندگی تلاش کر رہا ہو، کسی سکھ کو معصوم مسلم بچے کو پناہ دینے کے جرم میں اپنی بستی سے بے دخل کر دیا جائے۔

ہندوستان کی تقسیم و ہجرت تاریخِ انسانی کے بڑے المیوں میں سے ایک ہے۔ شاہد جاوید برکی کے اعداد و شمار کے مطابق 1947 میں ایک کروڑ 40 لوگوں نے اپنے علاقے کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہا۔ اس میں پنجابی اور غیر پنجابی دونوں شامل ہیں۔ پروفیسر اشتیاق کی تحقیقی کتاب “پنجاب کے بٹوارے” کے مطابق اس بے رحم ہجرت میں تقریبا ایک کروڑ سے زائد پنجابی دربدر ہوئے۔
“اگست 1947 سے مارچ 1948 تک ساڑھے 40 لاکھ سکھوں اور ہندوؤں نے مغربی پاکستان سے بھارت کو نقل مکانی کی جبکہ 60 لاکھ مسلمانوں نے بھارت سے پاکستان ہجرت کی۔”

تقریبا 10 لاکھ ایک جیسے دکھنے والے، ایک زبان بولنے والے پنجابی ان فسادات میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ مشرقی پنجاب سے زندہ بچ کر آنے والوں کی سانسیں تو چل رہی تھیں پر وہ زندہ نہیں تھے۔ ہر کسی کے پاس موت کی ایک دکھ بھری داستان تھی۔ یہی حال مغربی پنجاب سے ہجرت کرنے والوں کا بھی تھا۔

کیا سب تباہ ہو گیا، وہ شہر و شہرِ تاش
ہاں یہ خبر درست ہے، ہاں کچھ نہیں بچا!

پنجاب کی اس ناقابل بیاں ہجرت کو پون صدی بیت گئی ہے۔ ہم، جنہوں نے اس ظالم ہجرت کے قصے کتابوں میں پڑھے یا بزرگوں سے سنے تھے، شاید اس کرب کو کبھی محسوس کر سکتے نہ ان فسادات کا تصور کر سکتے لیکن چند دن قبل ڈان اخبار میں چھپی ایک خبر نے ہجرت کی ہولناکی کو عیاں کر دیا۔
“صوبہ پنجاب کے شہر اٹک میں گرینڈ ٹرنک روڈ کے قریب افغان مہاجرین کے خاندانوں کو لے جانے والا 22 پہیوں والا ٹرالر الٹنے سے دو افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے۔”

اس خبر کے ساتھ چھپی تصویر دیکھ کر ذہن میں اس ریل کی تصویر گھوم گئ جو لہو رنگ لاہور کے سٹیشن پر پہنچی، اور جس کے رکتے ہی زندہ انسانوں کے بجائے لاشیں لاہور ریلوے سٹیشن پر گری تھیں۔ ٹرک کے ساتھ رسیوں سے بندھے مہاجر افغان بچے کی آنکھوں میں پھیلی بے بسی دیکھ کر لاہور کے مہاجر کیمپ میں بین کرتی ان ماؤں کا تصور ذہن میں گھوم گیا جن کے لعل فسادات کی نظر ہو گئے تھے۔

یوں لگا جیسے آج ہم دوبارہ تاریخ کے اسی موڑ پر کھڑے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ 1947 کا نومبر دوبارہ لوٹ آیا ہے وہی میلوں تک پھیلے مہاجر قافلے، وہی ہجرت کا دکھ، وہی موت کا خوف، وہی شک کی بنیاد پر بے دخل ہوتے ہوئے لوگ، ایک اور انسانی المیہ نوشتۂ دیوار ہے لیکن پڑھنے والے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اس بے رحم ہجرت کو نہ روکا گیا تو شاید آج سے کچھ دہائیوں بعد تاریخ اس المیے پر بھی ماتم کر رہی ہو گی اور کوئی ناصر کاظمی کسی شہرِ طرب کا نوحہ لکھ رہا ہو گا:

پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شعبہ قانون سے منسلک ہیں۔ تحریر و تقریر زمانہ طالب علمی سے ہی ان کا خاصہ ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp