پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے بعد 4 لاکھ سے زیادہ افغان باشندے وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی زیر قیادت حکومت کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اس تعداد کی تصدیق کی ہے اور امریکی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر افغان باشندے وطن واپسی کے لیے طورخم اور اسپن بولدک کے سرحدی راستوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 17 لاکھ افغان باشندے مقیم تھے جب پاکستانی حکام نے غیر قانونی باشندوں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب دستاویزات کے بغیر کسی بھی شخص کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنا ہوگا ورنہ گرفتار کر لیا جائے گا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹرڈ دیگر 14 لاکھ افغانوں کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ صرف ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے جن کے پاس مناسب دستاویزات نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ 1980کی دہائی میں لاکھوں افغان اپنے ملک پر سابق سوویت یونین کے حملے کے دوران ہمسایہ ملک پاکستان بھاگ آئے تھے۔ 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ان کی تعداد میں مزید اضافہ دیکھا گیا۔
پاکستان نے افغان بھائیوں کی مدد کے لیے ایسے منصوبے بھی متعارف کرائےجن کے تحت جنوب مغربی سرحدی قصبے چمن میں لاکھوں رہائشیوں کو دونوں ممالک کے درمیان سرحد پار کرنے کے لیے ویزے کی ضرورت پر زور دیا گیا جب کہ اس سے قبل ان کے پاس خصوصی اجازت نامے تھے۔
چمن میں رہائش پذیر افغان باشندے اس وقت احتجاج کر رہے ہیں اور پاکستان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں کاروباری مقاصد کے لیے خصوصی اجازت نامے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے اور افغان سرحدی شہر اسپن بولدک میں رہنے والے رشتہ داروں سے ملاقات کی بھی اجازت دی جائے۔
واضح رہے کہ یکم نومبر سے پاکستان میں پولیس گھر گھر جا کر تارکین وطن کی دستاویزات چیک کر رہی ہے۔ پاکستانی حکام نے اس سے قبل کہا تھا کہ کریک ڈاؤن میں ملک میں موجود تمام غیر ملکی شامل ہیں لیکن متاثر ہونے والوں میں زیادہ تر افغان شہری ہیں۔
یہ تازہ ترین پیش رفت عالمی ادارہ صحت کی جانب سے خبردار کیے جانے کے چند روز بعد سامنے آئی ہے کہ سرد موسم کے آغاز کے باوجود تقریباً 13 لاکھ افغانوں کے پاکستان سے اپنے آبائی وطن واپسی متوقع ہے۔ ادھرافغانستان میں طالبان کی زیر قیادت انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ واپس آنے والوں کو پناہ اور خوراک فراہم کر رہی ہے۔
2020 میں سب سے زیادہ افغان پناہ گزینوں کو قبول کرنے والے 25 ممالک، پاکستان سر فہرست
افغانستان سے آنے والے زیادہ تر پناہ گزین پیدل ہی ملک چھوڑ کر ہمسایہ ملک پاکستان یا ایران میں داخل ہو جاتے ہیں۔ امریکا اس فہرست میں 22 ویں نمبر پر ہے۔
25 ممالک کی فہرست میں پاکستان سرفہرست ہے جہاں 14 لاکھ 38 ہزار رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں جب کہ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ اسی طرح ایران 780,000 افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے اسی طرح تیسرے نمبر پر جرمنی ہے جہاں پر 147,994 افغان باشندے پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق آسٹریا چوتھا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ 40,096 افغان مہاجرین مقیم ہیں اسی طرح فرانس میں 31,546 پناہ گزین افغان ہیں۔ امریکا نے سب سے کم افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ دی جہاں پر مقیم افغان باشندوں کی تعداد 1،592 ہے۔
اسی طرح سوئيڈن میں 29,927، گريس میں 21,456، سؤٹزرلينڈ میں 14,523، اٹلی میں 12,096، آسٹريليا میں 10,659، برطانیہ میں 9,351، بھارت میں 8,275، انڈونيشيا میں 5,863، تاجکستان میں 5,573، نيدرلينڈز میں 5,212، بلجيم میں 4,689، ترکی میں 4,219، ناروےمیں 4,007، فن لينڈ میں 3,331، کينڈا میں 2,261، ڈين مارک میں 2,134 ، امریکا میں 1,592، مليشيا میں 1,517، ہنگری میں 1,503 جب کہ سريا میں 1,107 افغان باشندے بطور پناہ گزین مقیم ہیں۔