جدید دور میں سوات کی قدیم چکی کیسے کام کرتی ہے؟

منگل 21 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بچپن میں اسماعیل میرٹھی کی ایک نظم پڑھی تھی، اُس وقت نظم کم از کم میرے سر سے گزر گئی تھی۔ عرصہ بعد جب دکوڑک کے گاؤں ’کلے‘ سے گزر ہوا اور پن چکی کو اندر سے دیکھنے کا تجربہ ہوا، تو بچپن میں رٹی ہوئی نظم کے چند مصرعے یاد آئے۔ وہ تو بھلا ہو سرچ انجن ’گوگل‘ کا جس کی مدد سے نہ صرف نظم ہاتھ آئی بلکہ خوب محظوظ بھی ہوا:
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دُھن کی پوری ہے کام کی پکی
بیٹھتی تو نہیں کبھی تھک کر
تیرے پہیے کو ہے سدا چکر
پیسنے میں لگی نہیں کچھ دیر
تو نے جھٹ پٹ لگا دیا اِک ڈھیر
لوگ لے جائیں گے سمیٹ سمیٹ
تیرا آٹا بھرے گا کتنے پیٹ
بھر کے لاتے ہیں گاڑیوں میں اَناج
شہر کے شہر ہیں ترے محتاج
تو بڑے کام کی ہے اے چکی!
کام کو کر رہی ہے طے چکی

پن چکی کیا ہے؟

پن چکی کو ہم سوات میں ’جرندہ‘ (پشتو لفظ) کہتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے آٹا پیسنے کی قدیم مشین ہے۔ پن چکی عموماً ندی یا پانی کی بڑی گزرگاہ کے اوپر بنائی جاتی ہے۔ کچھ چکیاں ایسی بھی ہیں جو پانی کی گزرگاہ سے ایک اچھی خاصی نالی نکال کر اونچی جگہ سے نیچے سیمنٹ سے بنائے گئے راستوں کے ذریعے پانی گرا کر اور نیچے چکیاں بنوا کر چلائی جاتی ہیں۔

پن چکی کا نقشا کچھ یوں ہوتا ہے کہ اس میں بڑے اور بھاری پتھر کو مخصوص گول شکل میں کاٹ کر دو مختلف پاٹ بنائے جاتے ہیں۔ اس طرح ایک پانی کا پہیا، چکر کھانے والی مشین یا ٹربائن شامل کیا جاتا ہے، جو بہتے ہوئے تیز پانی کی طاقت سے گھومتا ہے۔ یوں چکی کے پتھر گھمتے ہیں جو اناج یا دیگر مواد کو پیستے ہیں۔

کہاں کہاں سے دانے پسوانے لوگ ’کلے‘ آتے ہیں؟

کبھی ریاستِ سوات کا حصہ رہنے والے علاقے بونیر (جو اَب ایک الگ ضلع ہے) کے رہائشی فضل حکیم اتنے دور افتادہ علاقے سے دانے پیسنے سوات کے اس چھوٹے سے گاؤں میں کیوں لایا کرتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں: ’ہمارے علاقے بونیر میں پانی کا مسئلہ ہے، وہاں جب بارشیں ہوتی ہیں، تو تبھی چکیاں چلتی ہیں۔ اس وجہ سے ہم اپنے دانے یہاں لاتے ہیں۔ یہاں چوں کہ پانی وافر مقدار میں ہے، اس لیے چکیاں رُکتی نہیں۔ سوات کے گاؤں ’کلے‘ کی چکیاں پورے بونیر میں مشہور ہیں۔ یہاں تیار ہونے والا آٹا مزیدار بھی ہوتا ہے اور زاید المیعاد بھی۔ اس لیے ہم یہاں آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

دکوڑک چم کے رہنے والے ضیاء اللہ شاہ کہتے ہیں کہ کلے کی چکیاں نہ صرف ضلع سوات میں مشہور ہیں بلکہ شانگلہ اور بونیر میں بھی ان چکیوں کا شہر ہے۔ اس کے علاوہ ضلع سوات کے بینہ ٹاپ، کشورہ اور دیگر علاقوں سے بھی لوگ دانے پسوانے یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔

چکیوں کی اقسام:

ہمارے ہاں چکیوں کی 2 اقسام ہیں، جنھیں عام طور پر ہم اپنی مادری زبان پشتو میں ’گرمہ جرندہ‘ (گرم چکی) اور ’سڑہ یا یخہ جرندہ‘ (سرد چکی) کہتے ہیں۔ انھیں یہ نام کیوں دیے گئے ہیں؟

اس حوالے سے مختلف آرا ہیں: بونیر کے رہایشی فضل حکیم کہتے ہیں کہ گرم چکی پورا سال ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رُکتی۔ اس کی مدد سے آٹا بھی بڑی مقدار میں تیار ہوتا ہے، جب کہ سرد چکی پورا سال نہیں چلتی۔

سوات کی تحصیل مٹہ کے گاؤں گوالیرئی کے یحییٰ المعروف گل کاکا کہتے ہیں کہ گرم چکی میں تیار شدہ آٹے کی عمر زیادہ ہوتی ہے۔ یہ آسانی سے خراب نہیں ہوتا، جب کہ سرد چکی کے آٹے کی عمر بہ مشکل 2 سے 3 ماہ ہوتی ہے۔ اس طرح گرم چکی کا تیار کردہ آٹا، سردچکی کے آٹے کے مقابلے میں زیادہ لذیذ اور صحت بخش ہوتا ہے۔

پشوتنئی گاؤں کے سماجی کارکن خیراللہ کہتے ہیں: سرد چکی پرانے طریقۂ کارکے تحت کام کرتی ہے، جب کہ گرم چکی نئے طریقۂ کار کے تحت کام کرتی ہے۔ گرم چکی کے پاٹوں کے گرد اُٹھائی جانے والی دیوار میں چونے اور نمک کا استعمال کیا گیا ہوتا ہے، جو چکی گھومتے وقت پانی کی ٹھنڈک کو روکے رکھتی ہے۔ اس طرح تیار ہونے والا آٹا گرم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی میعاد بھی زیادہ ہوتی ہے۔

سرد چکی کے پاٹوں کے گرد اٹھائی جانے والی دیواروں میں چونے اور نمک کا استعمال نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے پانی کی ٹھنڈک پاٹوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہ آٹا زاید المیعاد نہ ہونے کے ساتھ ساتھ گرم چکی کے بنے ہوئے آٹے کے مقابلے میں کم لذیذ ہوتا ہے۔

خیراللہ گرم اور سرد چکی کے پاٹوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ان میں بھی فرق ہوتا ہے۔ سرد چکی کے پاٹ زیادہ سے زیادہ 7 انچ موٹے ہوتے ہیں، جب کہ گرم چکی کے پاٹ 20 ، 21 انچ بلکہ اکثر اس سے بھی زیادہ موٹے ہوتے ہیں۔

خیراللہ کے بقول: ’ہمارے گاؤں کے گرم اور سرد چکیوں کی عمارتوں میں بھی فرق ہے۔ سرد چکیوں کی عمارتیں ڈھیلی ڈھالی ہیں، جب کہ گرم چکیوں کی عمارتیں ان کے مقابلے زیادہ پختہ ہیں۔‘

کلے گاؤں کی دیگر خصوصیات:

’کلے‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے لیے اُردو میں موزوں لفظ ’گاؤں ہے۔ سوات کا گاؤں ’کلے‘ پن چکیوں کے علاوہ اپنی خوب صورتی کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس میں کئی طرح کی سبزیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ تاحد نظر کھیت ہی کھیت ہیں۔ درختوں کی بھی بہتات ہے جس کی وجہ سے گرمی کے موسم میں مینگورہ شہر اور آس پاس کے علاقوں سے لوگ ’کلے‘ سیر سپاٹے کے لیے آتے ہیں۔ پندرہ 20 منٹ کی پیدل مسافت پر دریائے سوات کے کنارے پکنک کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp