سائفر کیس: عمران خان کیخلاف جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن کالعدم، جج کی تعیناتی درست قرار

منگل 21 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے 29 اگست کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیدیا ہے۔

اس کے علاوہ عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کے تقرری کو درست قرار دے دیا ہے۔

مختصر فیصلے میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں مندرج سائفر مقدمے کے جیل ٹرائل کو اوپن کورٹ ٹرائل قرار نہیں دیا جا سکتا اس لیے اِس کو غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ مذکورہ مقدمے کے ٹرائل کے لیے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بنائی گئی خصوصی عدالت کا 27 جون کا نوٹیفیکیشن قانونی ہے جو وزات قانون نے جاری کیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسا قانون موجود نہیں جس کے تحت کسی مجسٹریٹ کو کسی خاص کمرے میں عدالتی کارروائی کے لیے پابند کیا گیا ہو لیکن غیر معمولی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جیل ٹرائل ممکن ہے بشرطیکہ اس کو اوپن کورٹ ٹرائل کی طرز پر کیا جائے۔ ان کیمرا ٹرائل بھی ممکن ہے لیکن اس میں قانون کو مدنظر رکھا جائے گا۔

عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف کے جیل ٹرائل کے لیے جاری ہونے والے 29 اگست کے نوٹیفیکیشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون کے 12 ستمبر، 25 ستمبر، 3 اکتوبر اور 13 اکتوبر کے نوٹیفیکیشنز بھی غیر قانونی ہیں۔

عدالت نے عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے حکمنامے میں لکھا ہے کہ کابینہ فیصلے کی بنیاد پر وزارت قانون کے جاری کردہ 13 اور 15 نومبر کے نوٹیفیکشنز بھی غیر قانونی ہیں کیونکہ یہ خصوصی عدالت کے جج کے حکمنامے کے تحت جاری نہیں ہوئے، جبکہ 15 نومبر کے نوٹیفیکشن کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جا سکتا۔

قبل ازیں عمران خان کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل 2 رکنی ڈویژن بینچ نے کی اور فریقین کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ  کر لیا تھا۔

عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ رولز کے مطابق جیل ٹرائل کے لیے جج کی مرضی لازمی ہے، متعلقہ جج ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کمشنر آفس کے ذریعے متعلقہ وزارت کو آگاہ کریں گے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ جیل ٹرائل کے لیے جج کو سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے، جس پر سلمان اکرم راجہ بولے؛ متعلقہ جج کو ذہنی یکسوئی کے ساتھ وجوہات بتانا ہوں گی، ہائی کورٹ رولز کے مطابق جیل ٹرائل تمام پروسیس سے ہوتا ہوا ہوگا، 29 اگست کے دستاویزات میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا کہ کیوں جیل ٹرائل کیا جارہا ہے۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ طریقہ کار کا آغاز ٹرائل جج نے کیا تو آگے طریقہ کار مکمل نہیں ہوا، جیل ٹرائل کے لیے منظوری وفاقی کابینہ نے دینا ہوتی ہے، اس کیس میں 12 نومبر سے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری موجود نہیں۔

عدالتی استفسار پر سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ جیل ٹرائل کے لیے پہلا فیصلہ ٹرائل کورٹ کے جج کا ہونا چاہیے، ٹرائل کورٹ کے جج کا خط فیصلہ یا حکمنامہ نہیں ہے، جج فیصلے کے ذریعہ اپنا ذہن استعمال کرتا ہے، جیل ٹرائل کے لیے طریقہ کار موجود ہے، جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہیے۔

سلمان اکرم راجہ کے مطابق اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے، دیگر وزراء اعظم کے خلاف اوپن ٹرائل اور میرے خلاف جیل ٹرائل کیوں ہورہا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ کیا ابھی تک کوئی جوڈیشل آرڈر سیکشن  52 تھری کے تحت پاس ہوا، جس پر سلمان اکرم راجہ بولے؛ رولز کے مطابق آج تک کوئی جوڈیشل آرڈر نہیں آیا، آج تک ٹرائل کورٹ کی جوڈیشل فائنڈنگ موجود ہی نہیں، جو اس کیس میں سب سے بنیادی غیرقانونی اقدام ہے۔

مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اب وفاقی کابینہ نے منظوری تو دیدی لیکن بنیادی جوڈیشل آرڈر موجود ہی نہیں، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ کابینہ کے فیصلے کا ماضی پر اطلاق نہیں ہوتا، جیل ٹرائل کیلئے سب سے پہلے ٹرائل جج نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ طرقیہ کار کے مطابق جج نے چیف کمشنر کو ہدایات دینی ہیں، چیف کمشنر منظوری کے لیے وفاقی حکومت سے رابطہ کرتے ہوئے ہائیکورٹ کو بھی آگاہ کرے گا، مان بھی لیا جائے کہ 12 نومبر سے کابینہ کی منظوری کے لیے طریقہ کار پر عمل کیا گیا تو پہلے کی کارروائی غیر قانونی ہوگی۔

عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ  کے مطابق 16 اگست کو ریمانڈ کی کارروائی اوپن کورٹ میں ہوئی جس کے بعد یہ ٹرائل جیل میں منتقل کیا گیا، ان کے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پروسیکیوشن کی جانب سے آتی ہے، جس پر جج نے اپنا ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا کہ پروسیکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہوگا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا، انہوں نے 8 نومبر کو جج ابو الحسنات ذوالقرنین کا لکھا خط پڑھتے ہوئے بتایا کہ جیل ٹرائل کا جوڈیشل آرڈر ضروری ہے، جیل ٹرائل کا جوڈیشل آرڈر ہمارا موقف سننے کا حق دیتا ہے۔

عدالتی استفسار پر سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ ہر بار ایک ایک سماعت کے لیے درخواست دی گئی اور اسی سماعت کے لیے اجازت بھی مل گئی، وفاقی کابینہ بھی معاملے کو دیکھے بغیر نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکتی، وفاقی کابینہ کے نوٹیفکیشن میں مستقبل کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے۔

سلمان اکرم راجہ کا موقف تھا کہ 8 نومبر کو جج کے خط کو دیکھتے ہوئے پوزیشن مزید واضح ہو جاتی ہے، جج نے خط میں کہا کیس کا جیل ٹرائل جاری ہے، کابینہ کی منظوری کا خط اس وقت لکھا گیا جب انٹرا کورٹ اپیل زیر سماعت تھی، 12 نومبر کو کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمارے اس معاملے پر دلائل کے بعد جج کو احساس ہوا کہ یہ طریقہ ہونا چاہیے تھا، 12 نومبر کو کابینہ ڈویژن نے سمری تیار کی گئی اور 13 نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، خصوصی عدالت نے غیر قانونی طور پر جیل ٹرائل کو جاری رکھا، جیل ٹرائل سے درخواست گزار کی بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔

جسٹس گل حسن نے دریافت کیا کہ کیا 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تھا، جس پر سلمان اکرم راجہ بولے؛ جج نے لیٹر میں جیل ٹرائل کی منظوری کا ماضی سے اطلاق نہیں مانگا، جو چیز مانگی ہی نہیں گئی، کابینہ اس کی منظوری کیسے دے سکتی ہے، 8 نومبر کے خط میں جج صاحب نے ماضی کی کارروائی کا ذکر نہیں کیا۔

سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار کے خلاف غیر قانونی جیل ٹرائل نہیں اوپن ٹرائل ہونا چاہیے، کابینہ کی منظوری کے بعد جاری نوٹیفکیشن میں وہ کچھ لکھا گیا جو جج نے کہا ہی نہیں ، جس پر جسٹس گل حسن بولے؛ آپ کہہ رہے ہیں کہ 13نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تھا، سلمان اکرم راجہ بولے؛ میں ایسا نہیں سمجھتا، کابینہ کی منظوری جوڈیشل آرڈر کے بغیر ہے۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان گرفتاری کے وقت جیل میں تھے تو جسمانی ریمانڈ نہیں لیا گیا، قانونِ شہادت کے مطابق کچھ نہ ہورہا ہو تو پھر کہیں کہ انصاف نہیں مل رہا، قانون کے مطابق فرد جرم ملزم کی موجودگی میں ہی عائد ہوتی ہے، اس کیس میں فرد جرم کے دوران ملزم وہاں موجود تھا۔

اٹارنی جنرل کے مطابق سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ملزم کیخلاف جیل ٹرائل چل رہا ہے، اڈیالہ جیل کے ایک بڑے میں ہال میں سائفر کیس کی سماعت ہورہی ہے، اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پہلے ہم شارٹ آرڈر اور پھر تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے۔ سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف اپیل پر آج ساڑھے 5 بجے فیصلہ سنایا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp