جب چاکلیٹی ہیرو اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے

جمعرات 23 نومبر 2023
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستانی فلم انڈسٹری کے پہلے سُپر سٹار کی برسی پر خصوصی تحریر

وحید مراد کےذہن پر بس یہی سوار تھا کہ وہ دنیا کو ثابت کردکھائیں کہ وہی پہلے پاکستانی سپراسٹار ہیں جن کی کشش ماند نہیں پڑی۔ یہ ایک ایسے اداکار کی سوچ تھی جو غیر معمولی اداکاری دکھانے پر 4 نگار ایوارڈز جیت چکا تھا۔ ایک ایسا اداکار جس کی فلمیں سنیما گھروں میں سجتیں تو واقعی کھڑکی توڑ کامیابی حاصل کرتیں۔کون سی اداکارہ نہیں ہوگی جو وحید مراد کی ہیروئن بننے کے لیے بے تاب نہ رہتی ہو۔ سلور، گولڈن، پلانٹینم اور ڈائمنڈ جوبلی فلمیں ان کی پہچان تھیں لیکن پھر وقت بدلنے لگا۔ ہر عروج کو زوال کا اصول ان پر بھی لاگو ہوا۔

فلم ساز اور ہدایتکار جو راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے رہتے تھےوہ نگاہیں بدلنے لگے۔ کئی ہیروئنز تو کسی” انجانے خوف ” کی وجہ سے وحید مراد کی ہیروئن بننے کو تیار نہیں تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وحید مراد جو خود بھی فلم ساز تھے جب کسی فلم کی تیاری کرتے تو تقسیم کاروں کی عدم دلچسپی ان کی ہمت کو ہی توڑ دیتی۔ قسمت کی دیوی تو وحید مراد سے روٹھی ہوئی تھی۔ فلموں کی ناکامی اوراپنوں کی بے رخی نےجیسے انہیں اور زیادہ مضطرب کردیا تھا۔

کیرئیر کا سورج جب ناکامی کے غم کو چھپائے غروب ہونے لگا تو وحید مراد نے ہاتھ پیر مارنے شروع کیے۔ یہ وہی دور تھا جب وحید مراد نے پشتو اور پنجابی فلم تک میں کام کرکے اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کے بادل گہرے سے گہرے ہوتے چلے جارہے تھے

غم اور ناکامی کے سائے پھیلتے ہی جارہے تھے تو ایسے میں ایک دن وحید مراد نے سوچا کہ وہ اس بحران سے اسی صورت نکل سکتے ہیں کہ پھر سے ہمت کرکے ایک بار پھر فلم بنائیں۔ اقبال یوسف، وحید مراد کے قریبی دوست تھے جو وحید مراد کی صورت اور سیرت، خدا اور محبت، جوش ، ہل اسٹیشن ، بدنام ، گھیرو اور گن مین کی ڈائریکشن دے چکے تھے۔ انہیں وحید مراد نے راضی کیا ایک نئی فلم بنانےکے لیےجس کےہیرو وہ خود بننےجارہے تھے۔

وحید مراد کا خیال تھا کہ یہ ان کے کیرئیر کا فیصلہ کن موڑ ہے۔ فلم ” ہیرو ” کی کہانی انہوں نے خود لکھی جبکہ مووی میں وہ دوہرے کردار ادا کررہے تھے۔ فلم کی کہانی نیکی اور بدی کے گرد گھومتی تھی۔ وحید مراد ایک کردار میں شریف النفس بنے تھے تو دوسرے کردار میں گینگسٹر کے روپ میں جلوہ گر ہورہے تھے۔ فلم کے لیےہیروئن ممتاز اور بابرہ شریف کا انتخاب کیا گیا۔ ندیم ، طالش، لہری، اسلم پرویز، الیاس کاشمیری، شاہد اور علی اعجاز نے اپنے پرانے دوست وحید مراد کی اس مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیتے ہوئے ” ہیرو” میں بطور مہمان اداکار کام کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔

وحید مراد نے ” ہیرو ” کےلیے اپنی تمام تر جمع پونجی استعمال کرنا شروع کی۔وہ چاہتے تھے کہ یہ تسلیم کرائیں کہ ان کی فلمیں ناکام ہورہی ہیں وہ خود نہیں، وہ آج بھی دلوں کی دھڑکن ہیں اور اگر اچھا اسکرپٹ اور ڈائریکشن ہو تو بیتے ہوئے کل کی شہرت اور مقبولیت کا دور پھر لوٹ سکتا ہے۔ وحید مراد کو یقین تھا کہ وہ ” ہیرو ” کے ذریعے سب کو غلط ثابت کردکھائیں گے۔

لاہور کے فلمی حلقوں میں جب وحید مراد کی اس نئی کاوش کے بارےمیں خبریں عام ہوئیں تو کئی نے اس اقدام کو طنز و مزح کے جملوں سے آراستہ کرکےموضوع بحث بنایا۔ وحید مراد ان سب چیزوں اور تبصروں سے بے نیاز فلم ” ہیرو ” کی عکس بندی پر توجہ دے رہے تھے۔ پے در پے فلموں کی ناکامی نے انہیں ذہنی طور پر ایسا پریشان کیا تھا کہ ان کی صحت بھی متاثر ہونے لگی تھی۔ اسی عرصے میں ان کی پیٹ کی ایک سرجری بھی ہوئی جس کی وجہ سے ان کا وزن بھی کم ہوگیا لیکن ان پر دھن سوار تھی کہ ” ہیرو ” کو بس مکمل کرنا ہے۔

یہ بات بھی وحید مراد کےلیے تسلی بخش تھی کہ ان کی فلم کی ہیروئنز بابرہ شریف اور ممتاز ان کے ساتھ بھرپور تعاون کررہی تھیں۔ عکس بندی کے دوران ہی سب نے محسوس کیا کہ وحید مراد خاصے کمزور اور لاغر ہوچکے ہیں۔ فلم کے کئی مناظر میں اس بات کی جھلک ملتی ہے۔ بابرہ شریف کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ایک منظر کے دوران وحید مراد کمزوری کی وجہ سے اس قدر اپنا توازن کھو بیٹھے کہ زمین پر آگرے اور دوبارہ اپنے قدموں پرکھڑے ہونے کےلیے انہیں خاصا وقت لگا۔

وحید مراد کے خواب ” ہیرو “ٗ کی عکس بندی تیزی سے جاری تھی لیکن اسی عرصے میں قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ ایک کار حادثے میں ان کے چہرے کا ایک حصہ خاصا متاثر ہوا تو فلم کی عکس بندی تعطل کا شکار ہوگئی۔ وحید مراد کو احساس تھا کہ لوگ ان کا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں اسی لیے انہوں نے چہرےکی شادابی اور تازگی برقرار رکھنے کےلیے پلاسٹک سرجری کرانے کا فیصلہ کیا۔ اسی کی دہائی میں پلاسٹک سرجری ایک مہنگا ترین علاج تصور کیا جاتا تھا جس کےلیے بھاری رقم درکار تھی۔ اب وحید مراد کے لیے یہ دہری مشکل تھی کہ ایک طرف انہیں اپنی فلم کے لیے سرمایہ فراہم کرنا ہے تو دوسری جانب اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری بھی کرانی ہے۔ لیکن انہوں نے سوچ لیا کہ وہ ہر امتحان اور ہر آزمائش سے گزر جائیں گے لیکن اپنے خواب کو بکھرنے نہیں دیں گے۔

اسی عرصے میں وحید مراد کو یہ خوش خبری بھی ملی کہ ہدایتکار پرویزملک انہیں اپنی فلم میں شامل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کچھ ایسا ہی اداکار شاہد نے بھی فیصلہ کیا اور وحید مراد کو فلم ” مقدر ” میں بطور ہیرو پیش کرنے کا اعلان کردیا۔

وحید مراد چاہتے تھے کہ وہ پہلے چہرے کی پلاسٹک سرجری کرالیں۔ اس مقصد کے لیے ان کی ڈاکٹرز سے اپائٹمنٹ بھی طے ہوگئی۔ ” ہیرو ” کی عکس بندی اب آخری مراحل میں تھی اور وحید مراد کی خواہش تھی کہ وہ جلد از جلد پلاسٹک سرجری کراکے اپنے حصے کا کام مکمل کرائیں لیکن واقعی وحید مراد کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اس وہ پلاسٹک سرجری کرانے کی تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے لاہور سے کراچی آئے تھے جہاں وہ ٹی وی فنکارہ انیتا ایوب کے گھر رہائش پذیر تھے۔ اگلی صبح 23 نومبر 1983 کو جب وحید مراد کو جگانے کے لیے کمرےکا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو وہ کھل کر نہیں دیا۔ گھر والوں کو تشویش ہوئی اور جب کسی طرح دروازہ کھولا گیا تو وہاں کا منظر ہر ایک کی توقع کے برخلاف تھا۔ وحید مراد فرش پر مردہ حالت میں پائے گئے۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ ان کی موت کئی گھنٹے پہلے ہوئی تھی اور موت کی وجہ دل کا دورہ بتایا گئی۔

وحید مراد کے پرستاروں کے لیے یہ خبر کسی بم دھماکے سے کم نہیں تھی کہ ان کا چاکلیٹی ہیرو صرف 45 برس میں دنیا سے منہ موڑ گیا۔ کئی کو یقین نہیں آیا لیکن یہی سچائی تھی۔ فلم نگری میں سوگ کا سماں تھا۔ وہ اداکار اور ہدایتکار جو وحید مراد سے بے رخی اور بےاعتنائی کا مظاہرہ کرچکے تھے انہیں اپنے رویے پر ملال اور رنج ہورہا تھا۔ کوئی یہ جان ہی نہیں سکا کہ وحید مراد کس قدر ذہنی اذیت اور بےقراری سےگزر رہے تھے۔

ہر کسی کےلیے وحیدمراد کا انتقال بڑے صدمے سے نہیں تھا۔ ایسے میں یہ سوال بھی گردش کرنے لگا کہ اب کون وحید مراد کے خواب ” ہیرو ” کو مکمل کرے گا؟ قیاس آرائیاں تو بھی ہونےلگیں کہ یہ فلم اب ڈبوں میں بند ہونے جارہی ہے۔ وحید مراد کے ایک قریبی دوست اور اداکار محمد علی کےکانوں تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ “ہیرو” کو سنیما گھر تک لےجانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اسی لیے وہ آگے آئے۔ وحید مراد کے نامکمل مناظر کو ان کے ڈپلی کیٹ کی مدد سے پورا کیا گیا۔

فلم ” ہیرو” کی عکس بندی سست روی کا شکار تھی لیکن دھیرے دھیرے ہو ہی رہی تھی یہی ہدایتکار اقبال یوسف کے لیے کافی تھا۔ اور پھر وحید مراد کی وفات کے لگ بھگ 2 سال بعد 11جنوری 1985کو فلم ” ہیرو ” سنیما گھروں کی زینت بن ہی گئی۔ جس کو دیکھنے کے لیےپرستار اس لیے بھی آئے کہ وہ اپنے من پسند ہیرو کی یہ آخری کاوش دیکھ کر اسے خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے تھے۔ کامیابی اور خود کو دوبارہ سے منوانے کا خواب وحید مراد کی زندگی میں تو پورا نہیں ہوا لیکن یہ ضرور ہےکہ ان کے چل بسنےکے بعد یہ واقعی حقیقت کا روپ دھار گیا کیونکہ ” ہیرو” نے کامیابی کی سلورجوبلی جو مکمل کی ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp