آزاد جموں وکشمیر کی 80 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جن میں زیادہ تر لوگوں کا انحصار کھیتی باڑی اور مویشی پالنے پر ہے۔
آزادکشمیر میں 2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد عارضی طور پر نقل مکانی کرتے ہوئے پاکستان کے مختلف علاقوں کی طرف چلی گئی جس کا نقصان یہ ہوا کہ نقل مکانی کرنے والوں نے مال مویشی بیچ ڈالے، اس کے علاوہ زلزلے میں بھی مال مویشیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو گئی تھی۔
ریاست میں اب کھیتی باڑی اور مویشی پالنے کا رجحان کم ہو رہا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے تعلیم یافتہ نئی نسل خود کو ’ماڈرن‘ سمجھنے لگ گئی ہے۔
زلزلے سے قبل ہر گھر کے لوگ مویشی پالتے تھے، محمد منیر
ریاستی دارالحکومت مظفرآباد کے ایک گاؤں پنجگراں میں رہائش پذیر محمد منیر نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ زلزلے سے قبل لوگوں کا رہن سہن بالکل مختلف تھا، ہر گھر کے لوگ مویشی پالتے تھے مگر زلزلے سے مویشیوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوگئی، اس کے علاوہ زلزلے میں تباہ ہونے والے جانوروں کے اسپتال اب تک دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے مویشی پال حضرات کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ زلزلے کے بعد پھیلنے والی وبا میں بھی مویشیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی اور لوگوں کا نقصان ہوا۔ ’یہاں موجود وٹرنری اسپتال کی عمارت تباہ ہوگئی تھی جس کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تھا مگر ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی‘۔
نئی نسل سمجھتی ہے کہ گوشت اور دودھ مارکیٹ سے بھی مل جاتا ہے، سدھیر مغل
پنجگراں کے ایک اور نوجوان سدھیر مغل نے کہاکہ کچھ عرصہ قبل گاؤں کا ہر شخص مویشی پالتا تھا مگر اب لوگوں کا رجحان بدل گیا ہے، نئی نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو گئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں یہ کام کوئی ضروری نہیں ہے، گوشت اور دودھ تو مارکیٹ سے بھی مل جاتا ہے۔
سدھیر مغل نے کہاکہ نئی نسل کی سوچ میں آنے والی اس تبدیلی کا ہمیں بہت نقصان ہوا ہے، ’ہماری زمینیں بنجر ہو گئی ہیں، لوگ چراگاہوں کو چھوڑ کر سڑکوں کے کنارے آباد ہو گئے ہیں کیونکہ وہاں پر سہولیات زیادہ ہیں‘۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات نا ہونے کی وجہ سے بھی لوگ چراگاہوں کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔
اب لوگوں نے زرعی زمینوں پر مکان بنا لیے ہیں
انہوں نے کہاکہ ماضی میں لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے، لیکن اب مکمل طور پر انحصار مارکیٹ پر ہی ہے۔ ’کچھ عرصہ قبل تک ہم اپنی ضرورت کی 100 فیصد گندم اپنی زمینوں سے پیدا کرتے تھے لیکن اب زرعی زمینوں پر مکان بن چکے ہیں۔
سدھیر مغل نے کہاکہ نوجوان نسل کا ذہن بالکل بدل گیا ہے، وہ بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں، کچھ بیرون ملک جانے کے خواہشمند ہیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان کھیتی باڑی اور مویشی پالنے کو پسند نہیں کرتے۔ ’کھانے پینے کی اشیا بازار سے خریدنے کے بعد لوگوں کی صحت بھی اچھی نہیں رہی جبکہ ماضی میں بیماریوں کی شرح بہت کم تھی‘۔
حکومت لوگوں کو سہولیات دے اور شعور بیدار کرے
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں لوگ اپنے مال مویشیوں سے دودھ حاصل کرتے تھے، اب انتظار ہوتا ہے کہ محلے کی دکان پر ملک پیک کب آئے گا اور ہم خریدیں گے۔
سدھیر مغل نے کہاکہ حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کو سہولیات دے اور شعور بیدار کرے، اس کے علاوہ مویشی پالنے والے لوگوں کی سہولت کے لیے ضروری ہے کہ وٹرنری اسپتال کی عمارت تعمیر کی جائے اور یقینی بنایا جائے کہ عملہ ہر وقت دستیاب ہو۔
بچے پڑھ لکھ چکے، مویشیوں کی جانب ان کا رجحان نہیں، ساجدہ بی بی
45 سال کی مقامی خاتون ساجدہ بی بی کہتی ہیں کہ وہ بچپن سے اپنے والدین کے ساتھ مال مویشی کی دیکھ بھال کرتی رہی ہیں لیکن اب ان کے چاروں بچے پڑھ لکھ چکے ہیں اور ان کا رجحان ہی نہیں ہے کہ وہ مال مویشی رکھیں یا کھیتی باڑی کریں۔
ساجدہ بی بی نے کہاکہ میرے بچے نوکری کی غرض سے دوسرے شہروں میں رہائش پذیر ہیں، ’یہ صرف ساجدہ بی بی کے گھر کی کہانی نہیں بلکہ ہر گھر کی کہانی ہے کہ نئی نسل یہ کام نہیں کرنا چاہتی‘۔
بڑھتی آبادی کی وجہ سے لوگوں کی زرعی زمینیں محدود ہو رہی ہیں، ڈی جی امور حیوانات
محکمہ امور حیوانات کے ڈائریکٹر جنرل شفقت محمود نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے جہاں لوگوں کی زرعی زمینیں محدود ہوتی جا رہی ہیں وہیں پر مال مویشیوں کی چراگاہوں میں بھی واضح کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا مال مویشی پالنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2 سال پہلے ایل ایس ڈی کے نام سے ایک بیماری پھیلی تھی جس کے باعث 20 ہزار سے زیادہ جانور ہلاک ہوگئے تھے۔ اتنے بڑے پیمانے پر جانوروں کی ہلاکتوں کی وجہ یہ بھی تھی کہ ابتدا میں ویکسین ہی موجود نہیں تھی۔
لوگوں کو مویشی پالنے کی جانب راغب کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں
شفقت محمود نے کہاکہ بعد میں آزاد کشمیر حکومت نے ویکسین امپورٹ کرائی جس کے بعد محکمے نے پہلے ہی مرحلے میں اڑھائی لاکھ جانوروں کو ویکسین لگائی اور اس بیماری پر قابو پا لیا گیا تھا۔
ڈائریکٹر جنرل امور حیوانات کا کہنا تھا کہ زلزلے میں لگ بھگ 200 وٹرنری اسپتال اور فرسٹ ایڈ سنٹر تباہ ہو گئے تھے جن میں سے ابھی تک صرف 30 فیصد ہی تعمیر ہو پائے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ لوگوں کو مویشی پالنے کی جانب راغب کرنے کے لیے محکمہ امور حیوانات اقدامات کر رہا ہے۔ مویشیوں میں دودھ کی مقدار بڑھانے کے لیے سپلیمنٹ انجیکشن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے کم دودھ دینے والے جانوروں کی دودھ کی پیداوار 100 فیصد بڑھ جاتی ہے۔
آزادکشمیر میں نوجوان نسل زراعت اور مال مویشی پالنے سے دور بھاگ رہی ہے اور مستقبل میں اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو اس طرف راغب کرنے کے لیے پرکشش مراعات دے۔