عام انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاریاں کر رہی ہوتی ہیں، امیدوار اپنے حلقوں میں ووٹرز سے اچھے تعلقات قائم کرنے اور انہیں اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے منا رہے ہوتے ہیںتاہم گزشتہ کچھ انتخابات میں دیکھا گیا ہے کہ عام انتخابات سے قبل کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے ایک ماحول بنایا جاتا ہے، سیاسی تجزیہ کاروں سمیت عام آدمی کو بھی ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ جیسے اس بار یہی پارٹی الیکشن میں کامیاب ہو کر حکومت بنائی گی۔
سال 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایسا ماحول بنایا گیا کہ جس کے باعث پی ٹی آئی نے 2013 کی قومی اسمبلی میں 25 سے بھی کم نشستیں ہونے کے بعد 2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 150 سے زائد نشستیں حاصل کر لیں، اب 2024 کے عام انتخابات سے قبل ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ ن لیگ کے لیے ماحول بنایا جا رہا ہے اور اگلا الیکشن ن لیگ ہی جیتے گی۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا عام انتخابات سے قبل بنائے جانے والے سیاسی ماحول سے سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہوتا ہے؟
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ ہر عام انتخابات سے قبل کسی بھی ایک سیاسی جماعت کی جیت کے لیے ماحول بنایا جاتا ہے، 70 کی دہائی میں ہونے والا الیکشن پاکستان کی تاریخ کا واحد الیکشن تھا جو کہ صاف اور شفاف تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کبھی صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہو سکے ہیں، ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی بھی ایک سیاسی جماعت کے لیے ماحول بنایا جاتا ہے اور انہیں جتوایا جاتا ہے۔
امتیاز عالم نے کہا کہ اس بار بھی فوج اپنی مرضی کی جماعت کو اقتدار دلانا چاہتی ہے، مجھے ایسا نہیں لگا رہا کہ اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کو اقتدار دلانا چاہتی ہے، آئندہ انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار ابصار عالم نے کہا کہ 2008 میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لیے ماحول نہیں بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی بے نظیر کی شہادت کے بعد ملنے والے sympathy ووٹ کے باعث اقتدار میں آئی تھی، اور صرف وفاق اور سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔
2013 میں بھی ن لیگ کے لیے ماحول نہیں بنایا گیا، اگر ایسا ہوتا تو الیکشن کے ایک سال کے بعد وہی اسٹیبلشمنٹ حکومت کے خلاف دھرنے نہ کراتی۔ 2018 کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے پاس محض 22 نشستیں تھیں قومی اسمبلی میں اور اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کے لیے ایسا ماحول بنایا کہ 22 نشستوں والی جماعت 162 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
ابصار عالم نے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل بنائے جانے والے ماحول کا حالیہ بنے ہوئے ماحول سے موازنہ درست نہیں۔ نواز شریف کے خلاف 2018 میں کوئی سنگین کیس نہیں تھا، لیکن اب عمران خان کے خلاف سائفر کا اور 9 مئی کا کیس ہے جو کہ بہت سنگین نوعیت کے کیسز ہیں۔
ن لیگ کے پاس 2018 کی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے بعد سب سے زیادہ نشستیں تھی اور پنجاب اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں تھیں۔ اب بھی ن لیگ اور پی ٹی آئی کی مجموعی نشستوں میں زیادہ فرق نہیں لیکن 2018 سے قبل یہ فرق سینکڑوں کا تھا۔ ن لیگ نے 2013 کے انتخابات میں کیے گئے وعدے پورے کیے لیکن پی ٹی آئی نے 2018 کے انتخابات میں کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔
ابصار عالم نے کہا کہ اسٹیبلیشمنٹ کا عمران خان کو لانے کا فیصلہ بری طرح سے ناکام ہو گیا ہے، پاکستان کی معیشت کا پہیہ جام کیا گیا ہے، کوئی بھی ملک پاکستان کو قرض کیا بھیک دینے کے لیے بھی تیار نہیں، کسی ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات صحیح نہیں ہیں۔
اس وقت پاکستان کو ایسے شخص کی ضرورت ہے کہ جس کو دوست ممالک بھیک دے سکیں۔ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ اسی لیے لائی ہے کہ وہ واحد شخص ہے کہ جس نے 2013 میں بھی آ کر پاکستان کو سنوارا تھا اور اب بھی سنوارے گا، نواز شریف تو پاکستان میں آ کر حکومت بنانے کے خواں نہ تھے۔ وہ شہباز دور میں بھی پاکستان نہ آئے، نواز شریف کو منتیں کر کے لایا گیا ہے۔ پاکستان کی مجبوری تھی کہ کسی ایسے شخص کو لایا جائے جس پر دنیا اعتماد کرے۔ سب کا خیال ہے کہ نواز شریف ہی یہ کام کر سکتا ہے۔
میڈیا کو بھی اس پر لگا دیا گیا ہے کہ 2018 کی طرح 2024 میں بھی کسی جماعت کے لیے ماحول بنایا جا رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک کے ساتھ زیادتی کی ہے اور اب وہ اس زیادتی کا ازالہ کرنا چاہ رہی ہے جو کہ نہیں ہو پا رہا۔
عمران خان دور میں سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کرتی تھی، لیکن نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو کھلی چھوٹ نہیں دیتے۔ اب بھی ڈر ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو کھلی چھوٹ نہیں دے گا اسی لیے نواز شریف کی مکمل سپورٹ نہیں کی جا رہی ہے۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی انصار عباسی نے کہا کہ 2008 کے انتخابات جنرل مشرف نے مینج کیے تھے کنگز پارٹی ق لیگ کے لیے لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔
جنرل کیانی کے آرمی چیف بننے کے بعد فوج نے اپنے آپ کو سیاست اور انتخابات سے دور کر لیا، اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی کو اقتدار مل گیا۔ 2018 میں پی ٹی آئی کو ہر قسم کی مکمل سپورٹ حاصل تھی، میڈیا کو کنٹرول کیا گیا اور اس کے نتیجے میں عمران خان کو وزیراعظم بنایا گیا۔
2018 اور 2024 کے حالات اس لیے کچھ مختلف ہیں کہ 2018 میں عمران خان کی عوام میں مقبولیت بہت زیادہ تھی، نواز شریف کی اس وقت وہ مقبولیت نہیں ہے۔
انصار عباسی نے کہا کہ اس وقت ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کا انتخابات میں جیتنا بہت مشکل ہے لیکن میرے خیال میں الیکشن کے دن پی ٹی آئی سرپرائز دے سکتی ہے۔
میرا خیال ہے عمران خان کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، الیکشن کے وقت عمران خان کو مقدمات میں سزا ہو چکی ہو گی، اگر عمران خان الیکشن نہیں لڑتے تو میرا نہیں خیال کہ پی ٹی آئی انتخابات میں کامیاب ہو سکتی ہے۔