غزہ بارے بات کرنا آسان نہیں ہے۔ جب بھی سوچا کہ اس پر قلم فرسائی کروں تو خود کو کسی غیراہم سے اہم کار میں مصروف کر لیا۔ غازہ سے نظر چرا کے اپنے قرطاس و قلم بچا کے گذر گیا۔ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ بات کہاں سے، کب سے اور کیسے شروع کی جائے۔ مرنے والوں کی تکلیف کو سپردِ قلم کیا جائے یا لکھت میں قلم ہوئے سروں کی گنتی کی جائے۔
کتنے گھر مسمار ہوچکے، کتنے سکول جل چکے، کتنے ہسپتال ملامیٹ ہوچکے، کتنی شادیاں ماتمی ہو چکیں، کتنے بچّے بچ گئے، کتنے بچنے سے پہلے مر گئے، کتنی کوکھیں کوئلہ ہو چکیں۔۔۔ ان کی گنتی تو ہوجائے، ہو بھی رہی ہے، ہو بھی جائیگی، ہر گھنٹے کے حساب سے، ہر 24 گھنٹے کے حساب سے گرینڈ ٹوٹل۔۔۔ اور جب جنونیت کا، طاقت کا، بربریت کا، برتری کا مادہ بہہ نکلے گا۔۔۔ جنگ بندی ہو جائے گی۔۔۔ کھنڈرات میں جا بجا بکھری اِنسانوں، حیوانوں اور نباتات کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فتح کا نعرہ جب بلند ہو چکا ہو گا تو گرینڈ گرینڈ ٹوٹل کے تخمینے تو بی بی سی اور الجزیرہ اور سی این این سے بھی نشر ہو جائیں گے۔
مگر کتنی آرزوئیں، کتنی تمنائیں، کتنی خواہشیں، کتنی خوشیاں، کتنے خواب اور کتنی تعبیریں اس انا کی بقا کی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئیں۔۔۔ ان کا حساب کتاب، ان کا تخمینہ، اور ان کا گوشوارہ کیسے مرتب ہو گا!!!
سوچتا رہا کہ عوام کی حساسیت بارے لکھنا ہے یا خواص کی بے حسی بارے۔ تاریخی حوالے دے کر بات مدلل کرنی ہے یا تاریخ سے آگے نکل کر۔ ہو رہے موجود بارے پڑھنے والوں کے لیے اندوہناک واقعات لکھنے ہیں۔۔۔ شامِ غریباں بپا کرنی ہے۔۔۔ لیکن شامِ غریباں بپا کرنے کا وقت بھی تو نہیں آیا۔ ظلم کی شام تو ہوئی ہی نہیں۔ ابھی تو لاشوں کے گرنے کا عمل جاری ہے۔ آخری لاشہ گرے گا تو ہی شامِ غریباں کا انعقاد ہوگا۔
غازہ پر لکھنے کے کرب سے بچنا ہی چاہتا تھا میں۔۔۔ اور گمان تھا کہ چند گھنٹے۔۔۔ چند دن بعد کچھ بہتر ہو جائگا۔ خِرَد اپنا رستہ بنائے گی۔۔۔ انسان کے اندر کے حیوان کو کینڈے میں کر لے گی۔ 2023ء کے اختتام پر آخر انسان کو فہم و دانش کی طرف رجوع کرتے لگ بھگ 3 ملین سال تو ہوچکے۔ ان سالوں میں کئی انقلاب، کئی نظریات، کئی تحریکیں، کئی جنگیں، کئی امن، کئی مکالمے، اور کئی مذہب آچکے۔ لاکھوں نبی پیغمبر رسول، سنت سادھو، پیر فقیر، اصحابِ دانش و فلسفہ۔۔۔ سب کا کہا سنا۔ سب کی تعلیم تدریس، سب کے الہامی و آفاقی پیغام۔۔۔ صلہ جوئی کے، امن و آشتی کے، معاملہ فہمی کے، پیار محبت کے درس۔ ان لاکھوں میں آئے سب مصلحین کی نہیں تو۔۔۔ کوئی ڈیڑھ دو ہزار کی بات۔۔۔ ڈیڑھ دو ہزار نہیں تو۔۔۔ کسی ایک کی بات۔۔۔ اپنے اپنے نبی پیغمبر کی بات کا اثر تو ہوا ہوگا۔ آخر اصلاح ِ آدمیت کا سلسلہ چار پانچ ہزار سال سے تو چل ہی رہا ہے۔ مگر تاریخ کے اس موڑ پر آکر۔۔۔ کہ جہاں انسان انسان کو کاٹ رہا ہے۔۔۔ انسان انسان کو کٹوا رہا ہے۔۔۔ انسان انسان کے کاٹے جانے کی پشت پناہی کر رہا ہے۔۔۔ انسان انسان کے کاٹے جانے پر خاموش کھڑا ہے تو لگتا ہے کہ سب لا حاصل۔۔۔ سب کارِ دارد۔۔۔ سب بے کار۔۔۔ اور سبھی ناکام۔ کون آلِ اسرائیل۔۔۔ کون پیروکارِ عیسیٰؑ۔۔۔ کون نام لیوائے محمدﷺ۔۔۔۔ اور کیا ایک ملت۔۔۔ ایک قوم۔۔۔ جسدِ واحد۔۔۔
انسان ملکوں میں بٹا تو رنگ، نسل اور علاقے کی نسبت اور بھی نمایاں ہوگئی۔ پہلے نسل کا مفاد ملت کے مفاد پر حاوی تھا۔ اب ملک کا مفاد مذہبی تعلق پر حاوی ہوگیا۔۔۔ اور دوجوں پر حاوی اب بھی وہی تھا کہ جس کے پاس اوزار تھا۔۔۔ ہتھیار تھا۔۔۔ عقل تھی۔۔۔ تدبیر تھی۔۔۔ ہوشیاری تھی۔۔۔ عیاری تھی۔ مطلب۔۔۔ کسی بھی طرح کی طاقت تھی۔۔۔ فہم تھا۔۔۔ فراست تھی۔۔۔ جو جاہلانہ جذباتیت سے مبرّا تھی۔ سپہ سالارِ اعظمﷺ نے تدبیر تو بدر میں بھی اختیار کی اور خندق میں بھی۔۔۔ ذرا انﷺ کی جنگی حکمتِ عملیوں پر بھی تو دھیان کیجئے۔۔۔ ورنہ دروس ہائے مساوات و عدل و انصاف و برابری۔۔۔ سب واسطے کمزور کے۔۔۔ آج سے نہیں۔۔۔ شروع سے۔ ذرا تاریخ کی لوح پر لکھے آدابِ مساعیٔ بقا پر تو ایک نظر ڈالیے۔۔۔ کہ جو بلا تخصیصِ انسان و حیوان و نباتات۔۔۔ ہر جگہ پر مستعمل نظر آتے ہیں۔
یہی آدابِ مساعیٔ بقا لِوانت میں بھی ملتے ہیں۔ یہ وہی لِوانت ہے ناں جہاں زرخیز ہلال کے ارد گرد انسانی تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا۔۔۔ جہاں نوحؑ و لوط ؑو ابراہیم ؑ واسحاقؑ و اسماعیلؑ و یعقوب ؑو یوسفؑ و موسیٰؑ و داؤد ؑو سلیمانؑ و ذکریاؑ و یحیٰؑ و عیسیٰؑ انسانیت کا سبق پڑھاتے رہے۔۔۔ احترامِ آدمیت کا درس دیتے رہے۔ اور یہاں سے کوئی آٹھ نو سو میل دور حجاز کے ریگ زاروں میں ظہورِ محمدﷺ ہوا۔ اور وہاں بھی امن اور سلامتی اور بھائی چارے کی بات کی گئی۔ اور اِن سبھوں کے ماننے والے۔۔۔ ایک دوسرے کے خون کے ایسے پیاسے کہ صدیاں گزر گئیں۔۔۔ ان کے خون کی پیاس ختم نہیں ہوئی۔ مطلب انسان۔۔۔ من حیث المجموعی۔۔۔ خسارے میں ہی رہا۔ اور اُتارے میں وہی رہا جو طاقت ور تھا۔۔۔ اور یہ وہ اصول یا ضابطہ یا حقیقت ہے کہ جو مصلحین سے پہلے بھی حقیقت تھی۔۔۔ اور آج بھی حقیقت ہے۔
موسیٰ ؑکی راہ نمائی میں یہودیوں نے مصر سے ہجرت کی اور کنعان میں آ۔۔۔ آباد ہوئے۔ اس کے بعد کامن ایرا سے کوئی 800 سال پہلے انہیں اسوریوں نے سلطنتِ اسرائیل سے دیس نکالا دیا۔ پھر اگلی صدیوں میں بابلونیوں نے ہیکلِ سلیمانی کو تاراج کیا اور انہیں یروشلم سے نکالا۔ پھر رومیوں نے انہیں در بدر کیا اور یہ یورپ کے مختلف علاقوں میں جا آباد ہوئے۔۔۔ جہاں انہیں کبھی بھی قبول نہیں کیا گیا۔عیسائیوں نے ان پر زندگی ہمیشہ تنگ ہی رکھی۔۔۔ سپین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں انہیں مارا گیا، جلایا گیا، در بدر کیا گیا، درگور کیا گیا۔۔۔ خاص کر نازیوں کی طرف سے ہوئے غیر انسانی مظالم۔۔۔ بربریت کی مثال ٹھہرے۔ اور پھر ان پر ہوئے مظالم پراَیکسَڈس اور پیانِسٹ اور فریسکو کِڈ جیسی فلمیں بنائیں گئیں جو کہ یہودیوں کی محبت میں نہیں تھیں۔۔۔ ہٹلر کے بغض میں تھیں۔ یہودیوں کے حق میں جو بھی ادب یورپ اور امریکہ میں تخلیق ہوا، اس کا مقصد بہرحال یہی سامنے آتا تھا کہ ایک طرف نازیوں کو برا بھلا کہا جائے۔۔۔ انہیں کرۂ ارض کی سب سے وحشی مخلوق بنا کر پیش کیا جائے۔۔۔ اور دوسری طرف یہودیوں کے لئے دنیا میں ایک نرم گوشہ پیدا کیا جائے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب یہودیوں کو یورپ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو امریکہ میں ان کو پناہ دی گئی ۔ مگر وہاں پر ان کی زندگی موت سے بدتر تھی۔ وِسٹن ہیُو آڈن کی مشہور نظم، “Say This City Has Ten Million Souls” یہودیوں کے ساتھ امریکہ میں ہونے والے غیر انسانی سلوک کا احاطہ کرتی ہے۔
انیسویں صدی کے اواخر میں۔۔۔ یورپ میں تھیوڈور ہرزل نے صیہونی تحریک کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا نے 2 مظاہر رونما ہوتے دیکھے۔۔۔ ایک تو 1945ء میں اقوامِ متحدہ کا قیام جبکہ دوسرا 1948ء میں کنعان میں ریاستِ اسرائیل کا ازسرِ نو وجود۔ یہودی ایجنسی کے سربراہ داؤد بن گورین نے اِدھر برطانوی زیرِ انصرام فلسطین میں قیامِ اسرائیل کا اعلان کیا۔۔۔ اُدھر امریکہ نے اس اعلان کو فوری مان لیا۔ اور اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو بذیعہ ریزولوشن 181 دو لخت کرتے ہوئے مسلمانوں کو فلسطین اور یہودیوں کو اسرائیل الاٹ کردیا۔ (اور کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب آپ بارے اس معاملہ و مسئلہ کے انسائکلوپیڈیا بریٹینِکا پرتحقیق کرتے ہیں تو وہاں اسرائیل برائے یہودی تو لکھا ملتا ہے لیکن فلسطین برائے مسلمان لکھا نہیں ملتا۔ بلکہ اسرائیل برائے فلسطینی ملتا ہے) اور یہودیوں کی نفرت کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیا گیا۔ اور یہودی اپنے لئے مختص کردہ علاقوں سے بھی باہر نکل کر ان علاقوں پر قبضہ کرنے لگے جو مسلمانوں کے لئے مخصوص کئے گئے تھے۔ باقی وہاں جو ہوا۔۔۔ تاریخ ہے۔۔۔ اور جو ہو رہا ہے۔۔۔ حال ہے۔۔۔ اور ہر حال۔۔۔ تاریخ بنتا جا رہا ہے۔ چونکہ حال نہیں بدل رہا۔۔۔ اسی لئے۔۔۔ تاریخ نہیں بدل رہی۔ مسلمان ماضی کے خمار میں رہتے رہتے حال کے مزار کے مجاور بن کر رہ گئے ہیں۔ تلواریں جمع کرنے میں اتنے مگن ہوئے کہ انہیں پتا ہی نہ چلا کہ دور تلوار کا نہیں رہا۔۔۔ توپ کا آگیا ہے۔۔۔ جذبات کا نہیں۔۔ ذہانت کا آگیا ہے۔
ظلم اور ذیادتی کے ان ادوار میں بھی یہودیوں نے تعلیم حاصل کی۔۔۔ ضروری فنون میں طاق ہوئے۔۔۔ اور نامساعد حالات کے با وجود۔۔۔ خود کوعلم و حکمت سے آراستہ کیا۔ جو قوم تعداد میں کم ہو اور راندۂ درگاہ ہو۔۔۔ بکھری ہو۔۔ اُدھڑی ہو۔۔۔ وہ اپنے دورِ لاچارگی کو کام میں لاتی ہے۔۔۔ اکٹھی ہوتی ہے۔۔۔ علم و فن میں دست رس حاصل کرتی ہے۔۔۔ اور ایک عجیب طرح کی بے حس۔۔۔ چالاک۔۔۔ اورعیار بن کر ابھرتی ہے۔غربتِ مالی اور غریب الوطنی انسان میں ایک عجیب قسم کی چاپلوسانہ خو پیدا کرتی ہے جو بقا کے سفر میں اس کے لئے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ یہودی نکالے گئے۔۔۔ گاہے گئے۔۔۔ پھاہے گئے۔۔۔ لیکن انہوں نے فقط دِوارِ گریہ سے لپٹ کر۔۔۔ آنسو ہی نہیں بہائے۔۔۔ انہوں نے خود کو ایک بھی کیا۔۔۔ خود کو تعلیم یافتہ بھی کیا۔۔۔ طاقتوروں سے دوستیاں بھی کیں۔۔۔ اور آج ان کے اپنی بقا کے لئے اپنائے گئے طور طریقوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
کہتے ہیں کہ ایسے مسائل پر کی گئی تقریر یا لکھی تحریر کے بعد حل بھی دینا ہوتا ہے۔۔۔ اور توقع کی جاتی ہے کہ حل وہ ہو جو سننے پڑھنے والے کی مرضی و منشا و خواہش کے عین مطابق ہو۔ لیکن اس مسئلے کا یا ایسے ہی کسی دوسرے مسئلے کا حل وہی ہے جو یہودیوں نے اپنایا۔۔۔ ظلم سہنے کے ساتھ ساتھ۔۔۔ خود کو۔۔۔ دوسروں سے بہتر کریں۔۔۔ دوسروں سے بہتر کی امید نہ کریں۔ بہتری، عدل اور انصاف کوئی چندہ یا بھیک نہیں ہوتے کہ آپ دامن پھیلائیں۔۔۔ زخم دکھائیں۔۔۔ روئیں۔۔۔ گڑگڑائیں۔۔۔ ترلے کریں۔۔۔ منت سماجت کریں۔۔۔ رحم کی اپیل کریں۔۔۔ تو آپ کو عدل اور انصاف کا چندہ دے دیا جائے۔ لشکر کشی۔۔۔ ظلم اور ذیادتی۔۔۔ سیلاب۔۔۔ یا سونامی۔۔۔ یا زلزلہ نہیں ہوتے کہ جن کی وجہ سے ہوئی تباہی کو کیش کرانے۔۔۔ آپ کشکول اٹھائے۔۔۔ قمیص اٹھائے۔۔۔ اور دامن پھیلائے۔۔۔ عالمی چوک یا چوراہے پر جا کھڑے ہوں گے۔۔۔ اور آپ کا دامن ڈالروں سے بھر دیا جائے گا۔
اس دلدل سے نکلنا ہے تو دوستی کرلیں۔ جو مل گیا اس پر قناعت کرلیں۔۔۔ اور اندر کھاتے۔۔۔ اس طویل جنگ کو جیتنے کی تیاری کا آغاز کریں۔ ورنہ اسی طرح اپنی آبادی کو مرواتے رہیں۔۔۔ روتے رہیں۔۔۔ بین ڈالتے رہیں۔۔۔ مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے رہیں۔۔۔ اور کابل میں چبھنے والے کانٹے پر۔۔۔ کابل سے ہزاروں میل دور ہوتے ہوئے۔۔۔ ہڑتالیں کرتے رہیں۔۔۔ رستے بند کرتے رہیں۔
میں احتجاج کے خلاف نہیں ہوں۔۔۔ لیکن صرف احتجاج کا حامی بھی نہیں ہوں۔۔۔ آگے مرضی آپ کی۔۔۔۔
سوچا تھا۔۔۔لاکھوں سال تہذیب اور تمدن کی آبیاری و پرداخت کے بعد۔۔۔ اب تک تو انسان کے جینز میں امن اور آشتی داخل ہو چکی ہوگی۔۔۔ جنگ سے بے زاری انسانی خُو کا خاصہ بن چکی ہوگی۔۔۔ اور یہ وقتی وبالی اُبال چند دنوں میں اتر جائگا۔۔۔ اقوامِ عالم مل بیٹھیں گی۔۔۔ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ لیکن نہیں ہوا۔۔۔ اور کرب بڑھتا گیا۔۔۔ اندر کی گھٹن بڑھنے لگی۔۔۔ تو نوحہ لکھنے بیٹھ گیا۔۔۔ ورنہ غازہ بارے بات کرنا آسان نہیں ہے۔ جب بھی سوچا کہ اس پر قلم فرسائی کروں تو خود کو کسی غیر اہم سے اہم کار میں مصروف کر لیا۔۔۔ غازہ سے نظر چرا کے۔۔۔ اپنے قرطاس و قلم بچا کے گذر گیا۔۔۔ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے۔۔۔ کب سے۔۔۔ کیسے شروع کروں۔۔۔ لیکن کرنی تو تھی۔۔۔ گھٹن جو بڑھنے لگی تھی اندر کی۔۔۔