’صبح اسکول جاتا ہوں اور اس کے بعد کباڑ چنتا ہوں‘۔ ننھے ساجد کے یہ الفاظ جب میری سماعتوں سے ٹکرائے تو فرط جذبات سے میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ سارا دن اسکول میں پڑھنے کے بعد یہ ننھی سی جان کباڑ چنتی ہے تاکہ اسے بیچ کر خاندان کے افراد کے پیٹ کی آگ بجھانے میں اپنا بھی حصہ ڈالا جاسکے۔
ساجد سے میری ملاقات ایبٹ آباد کے ایک نواحی علاقے جھنگی سیداں میں واقع ایک نجی اسکول میں ہوئی۔ اس اسکول کی واحد ٹیچر کا نام زرمینہ بی بی ہے جنہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ہی محسوس کرلیا تھا کہ اس علاقے میں کمزور معاشی پس منظر کے حامل بچے علم کی دولت سے محروم ہیں۔
وہاں سے قریب ترین اسکول 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں پہنچنا چھوٹے بچوں کے لیے ممکن ہے اور نہ ہی وہ کام چھوڑ کر اسکول جانے کے متحمل ہیں لہذا زرمینہ بی بی نے ان غریب اور پسماندہ بچوں کی زندگی سے جہالت کی تاریکی دور کرنے کا بیڑا اٹھالیا۔
زرمینہ کہتی ہیں کہ ‘پانچویں جماعت تک کے طلبہ میرے پاس زیر تعلیم ہیں اور یہاں سے کافی بچے فارغ ہو کر مڈل اسکول جاچکے ہیں جہاں ان کو اسکول والوں نے آرام سے اگلی کلاس میں داخلہ دے دیا کیوں کہ ان کی بنیادیں مضبوط ہیں’۔
بچوں کی ٹیچر نے بتایا کہ خداد صلاحیتوں کے حامل ان بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے انہیں سکون قلب حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اسکول میں پڑھنے والے بچے اگرچہ کم آمدنی والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی اکثریت دورافتادہ علاقوں سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی ہے مگر وہ قابلیت میں کسی سے کم نہیں‘۔
اسکول کی نعمت سے محروم بچوں کو پڑھانے والی زرمینہ کے پاس کوئی باقاعدہ عمارت بھی نہیں جہاں بنیادی سہولتوں کے ساتھ وہ بچوں کو پڑھا سکیں۔
واضح رہے کہ ورلڈ بینک کے تازہ سروے میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک قرار دیا گیا تھا۔ ایسے میں زرمینہ بی بی جیسے مخلص افراد باعث نعمت ہیں جو ان بچوں کو اندھیروں سے اجالوں میں لانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔
زرمینہ کی خواہش ہے کہ وہ ایک دن بچوں کے لیے اسکول کی باقاعدہ عمارت کے علاوہ اس کے لیے ضروری سہولیات کا بھی بندوبست کرسکیں تاکہ گردونواح میں کوئی بھی بچہ حصول تعلیم سے محروم نہ رہے۔