بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد محترم کے بیچ کیا ہوا ہے؟ اس سوال کا درست جواب تو شاید کسی کے پاس نہ ہو لیکن ایک خبر میرے پاس ہے۔ اس خبر کو درست تناظر میں سمجھ لیا جائے تو شاید نہیں بلکہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہم کسی درست نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
خبر کیا ہے؟ یہ جاننے کی خواہش فطری ہے لیکن کوئی واقعہ ہو یا خبر حقیقت یہ ہے کہ یہ اس کا سیاق و سباق ہی ہوتا جو دیکھنے، سننے، جاننے اور پڑھنے والوں پر اس کے ادراک کے دروازے کھولتا ہے۔ اس معاملے کا پس منظر بہت فطری اور آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جانے والا ہے۔ کوئی اگر یوں کہنا چاہے کہ اس ساری کہانی کا آخری سرا میثاق جمہوریت کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔
سیاست اور کار سرکار ریاضی کا کوئی فارمولا تو نہیں ہوتا کہ ضابطے کے مطابق چلتا رہے، اس میں بہت سے نشیب و فراز آتے ہیں۔ جہاں تک میثاق جمہوریت کا معاملہ ہے، ان ہی نشیب و فراز کے ساتھ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ بیچ میں ایک حادثہ ہو گیا۔ حادثے کا لفظ اپنے پس منظر کے ساتھ اس سیاسی معاملے پر پوری طرح فٹ نہیں بیٹھتا۔ وجہ یہ ہے کہ حادثہ تو اچانک ہوتا ہے لیکن وہ چیز جسے ہم حادثہ قرار دے رہے ہیں، پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ظہور میں آئی۔ یہ حادثہ یا واقعہ وہی ہے جسے واوین (ان واٹڈ کاماز) کے ساتھ تبدیلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور گاہے یہ لفظ ادا کرتے ہوئے چہرے پر ایک دلچسپ سی مسکراہٹ بھی آ جاتی ہے۔
ضرورت تو نہیں لیکن محض بات کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے یہ ذکر ناگزیر ہے کہ میثاق جمہوریت پاکستان کی سنجیدہ سیاسی کلاس کی ایک ایسی سنجیدہ کوشش تھی جس کا مقصد ملک کو ہر دہائی کے بعد کسی نئے تجربے سے روک کر سیاسی حادثات سے محفوظ رکھنا تھا جسے کچھ طبقات نے سمجھا نہیں یا اسے غلط معنی پہنا دیے تا کہ ان کے گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ یہ جو تبدیلی نام کی چیز تھی، اسی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک سبیل تھی۔ یہ تبدیلی نہ تو ان خواہشات کو پورا کر پائی جن کے لیے میثاق جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے لیے پاپڑ بیلے گئے اور نہ ملک اور قوم ہی کا کچھ بھلا ہو سکا۔ اب جبکہ تبدیلی کا بھوت اتر چلا ہے اور پوری ریاست مل کر ریاست کو اس کے اصل راستے پر ڈالنے کی خواہش مند دکھائی دیتی ہے اور اس کے لیے سنجیدہ تگ و تاز بھی ہو رہی ہے تو اب ہمارے سنجیدہ سیاسی طبقات کی بھی خواہش ہے کہ ان کی طرف سے کوئی ایسا نیا تجربہ یا نئی کوئی حماقت نہ ہو جائے جس کے نتیجے میں ملک ایک بار پھر کسی حادثے سے دوچار ہو جائے۔
تو واضح ہو کہ یہ پاکستان کی جمہوری قوتوں کی ایک سنجیدہ خواہش بلکہ یوں کہیے کہ ایک منصوبہ ہے۔ اس پس منظری وضاحت کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ خبر جس کا ذکر ہوا، اسے آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری ہوں، میاں نواز شریف ہوں یا مولانا فضل الرحمان، یہی تین افراد ہیں، ہماری سیاست جن کے گرد گھومتی ہے اور یہی تین بزرگ ہیں جو قومی سیاست کی صورت گری کے لیے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کر کے کسی راستے کا تعین کرتے ہیں۔ ان کے غور و فکر کا نظام پارٹی کی سطح پر بھی جاری رہتا ہے اور باہمی مشاورت کے ذریعے بھی۔ یہ لوگ اکٹھے غور و فکر کریں یا علیحدہ علیحدہ، ہر دو صورتوں میں یہ میثاق جمہوریت ہی ہے جو ان کے نظام فکر کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یعنی وہ 2024 کے انتخابات اور ان کے ممکنہ نتائج کے بعد جس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں، ان دنوں وہ اس کی صورت گری میں مصروف ہیں۔
مکرر عرض ہے کہ صورت گری کا یہ عمل میثاق جمہوریت کے دائرے کے اندر ہو گا۔ اس پس منظر میں آصف علی زرداری یہ خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بلاول بھٹو زرداری صاحب عوامی سطح پر جو لائن اختیار کر رہے ہیں، وہ میثاق جمہوریت کے دائرے سے باہر جا رہی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کے ایک بار پھر تبدیلی جیسے حادثے سے دوچار ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو جاتا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومی سیاست کے ان تین بڑوں کے ذہن میں اصل منصوبہ کیا ہے؟ ان کے ذہن میں جو منصوبہ پنپ رہا ہے، اس کا خاکہ یہ ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں فطری انداز سے سیاست کریں۔ وہ سیاسی جماعتیں جو تاریخی اور نظریاتی اعتبار سے حریف ہیں جیسے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی، یہ اپنا اختلاف بھی سیاسی اور پارلیمانی سطح پر جاری رکھیں لیکن سیاسی عمل کے دوران نوے کی دہائی والی اور 2014 سے اب تک والی کشیدگی پیدا نہیں ہونی چاہیے جو پی ٹی آئی اور عمران خان کے مزاج کے لیے خاص ہے، کیونکہ ایسی کشیدگی اور محاذ آرائی کے نتیجے میں ہر لحظہ یہ خدشہ برقرار رہے گا کہ کوئی تصادم خدانخواستہ اس سطح پر نہ جا پہنچے جس کے نتیجے میں غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کا موقع یا جواز مل جائے۔
محسوس کیا جاتا ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں پارلیمان میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی پہلے اور دوسرے نمبر پر ہوں گی لہٰذا حکومت سازی اور حزب اختلاف کی قیادت بھی ان ہی دو جماعتوں کو کرنی ہے۔ ان بزرگوں کی کوشش ہے کہ پی ٹی آئی حزب اختلاف کی قیادت تک بھی نہ پہنچ سکے تاکہ کسی بھی حادثے کے امکانات محدود تر ہو جائیں۔ حکومت کی قیادت کسے کرنی ہے۔ یہ بہت حد تک واضح ہے لیکن حزب اختلاف کی قیادت کون کرے گا، اس پر شبہات ہیں۔ بظاہر جیسے نظر آ رہا ہے، یہ ذمے داری بلاول بھٹو زرداری کے حصے میں آئے گی۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر ان کے والد سمیت دیگر بزرگوں کو خدشات ہیں لہٰذا میثاق جمہوریت کے فریم ورک میں خواہش یہ ہے کہ حزب اختلاف کی قیادت آصف علی زرداری کریں تاکہ کار مملکت بازیچہ اطفال بننے کے بجائے سنجیدہ اور تجربہ کار ہاتھوں میں رہے۔ ہماری سیاست کے سیاسی صورت گروں کے خیال میں یہی ایک صورت ہے جو ملک کو مستقبل میں کسی حادثے سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
اس منصوبے یا فکر کے مطابق اگر 2024 کے بعد تشکیل پانے والا نظام خیر و عافیت کے ساتھ چل نکلے تو پھر کار مملکت نئی نسل کو منتقل کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہونی چاہیے اور نہ ہو گی۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے درمیان اختلاف کا یہ مرحلہ خیریت سے نمٹ جاتا ہے تو اس صورت میں ہم آصفہ بھٹو زرداری کا لانچ دیکھیں گے۔ آصفہ اگر پیپلز پارٹی میں مرکزی جگہ پا لیتی ہیں تو اس کے نتیجے میں آصف علی زرداری صاحب کے قائد حزب اختلاف بننے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔