آب و ہوا میں تبدیلیوں کی جانچ کے لیے سمندری روبوٹک گلائیڈرز ٹیکنالوجی متعارف

ہفتہ 25 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 سکاٹ لینڈ میں سائنسدان نے آب و ہوا میں تبدیلوں کی وجوہات اور سمندزی لہروں کی جانچ کرنے کے لیے روبوٹک سب سی گلائیڈرز ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے، جسے سمندری ساحلوں پر استعمال کرنا بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ’کنویئر بیلٹ‘ جو کیریبین اور آرکٹک کے درمیان گرم اور ٹھنڈے  پانی کو ملاتا ہے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ اس سمندری نظام کے کمزور ہونے سے زمین کے ایک بڑے حصوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق اوبن میں سکاٹش ایسوسی ایشن فار میرین سائنس (سیمز)  5 ماہ سے برطانیہ اور آئس لینڈ کے درمیان خود کار روبوٹس کو تعینات کر رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بحراوقیانوس میں سمندری لہروں کی گردش دُنیا بھر میں ٹراپیکل گرمی کی تقسیم کے لیے انتہائی اہم ہے جو شمالی یورپ کو اسی طول بلد پر دیگر مقامات کے مقابلے میں زیادہ معتدل آب و ہوا پر رکھتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ٹمپریچرسپیسیفک انٹرافی (ٹی ایس ) کے زوال کو آب و ہوا کے ’ٹپنگ پوائنٹس‘ میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت آہستہ آہستہ کمزور ہو سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کی طاقت کے بارے میں کوئی ٹھوس نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کئی دہائیوں تک اس کی گردش پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

’ٹی ایس ‘ کی ماڈلنگ سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اس کا خاتمہ دُنیا میں بہت  تباہ کن ہوگا، لیکن 21 ویں صدی میں ایسا ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

سائنسدانوں کی جانب سے متعارف کرائے گئے روبوٹک گلائیڈرز پانی کے درجہ حرارت، آکسیجن اور نمک کی سطح کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرتے ہوئے 1،000 میٹر (3،281 فٹ) کی گہرائی میں غوطہ لگاتے ہیں۔

یہ روبوٹس ہر ایک آدھا میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہیں اور اسیٹلائٹ کے ذریعے تحقیقی ٹیم کے ساتھ رابطہ کرتے وقت ہر 5 سے 6 گھنٹے بعد دوبارہ سمندری سطح پر نمودار ہوتے ہیں۔

اوشینوگرافر ہیلن اسمتھ کا کہنا ہے کہ سمندری ماحول کا ابھی تک ناقابل یقین حد تک مطالعہ نہیں کیا گیا ہے کیونکہ عام طور پر موسم گرما میں زیادہ تر تاریخی مشاہدات ایک ہی وقت میں جہاز کے آس پاس کے علاقے تک محدود ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر اسمتھ کا مزید کہنا ہے کہ ‘ہم انہیں سال بھر ان جگہوں پر پانی کی پیمائش کے لیے بھیج سکتے ہیں جہاں تک ہم نہیں پہنچ سکتے۔

موجودہ نظام کو اٹلانٹک میریڈیونل اوورٹرننگ سرکولیشن (اے ایم او سی) کہا جاتا ہے اور 2004 سے اس کی پیمائش اور ماڈلنگ کی جا رہی تھی۔

جیسے جیسے گرم پانی شمال کی طرف بڑھتا ہے یہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے جس سے نمک کی کثافت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ گہرے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ ٹھنڈا پانی جنوب کی طرف بہہ کر سائیکل کو مکمل کرتا ہے۔

محکمہ موسمیات نے متنبہ کیا ہے کہ قطبی برف پگھلنے میں اضافے کے ساتھ ساتھ گرم آب و ہوا کا مطلب ہے کہ اس نظام پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

سیمس میں فزیکل اوشنوگرافی کے ماہر پروفیسر مارک انال شمالی بحر اوقیانوس میں گرمی کو زمین کی آب و ہوا کے نظام کا ایک اہم حصہ قرار دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یہ نظام قطبی علاقوں سے بڑی مقدار میں گرمی پہنچاتا ہے اور اس میں سے بہت زیادہ گرمی فضا میں آتی ہے جس کی وجہ سے یہ خاص طور پر برطانیہ کے ارد گرد ایک بڑا طوفانی ماحول بناتا ہے۔

ایموک کی نگرانی کے ساتھ ساتھ گلائیڈرز کی جانب سے جمع کردہ اعداد و شمار سائنس دانوں کی اس تفہیم کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں کہ سمندر میں ہونے والی تبدیلیوں سے فضا کس طرح متاثر ہوتی ہے۔ یہ مختصر مدتی موسم کی پیش گوئی کے لیے تقریباً حقیقی اعداد و شمار بھی فراہم کرتا ہے۔

استعمال کی جانے والی دیگر روبوٹک ٹیکنالوجی میں ایک خود مختار کشتی بھی شامل ہے جو سمندر کی تہہ پر سینسرز سے سمندر کے دباؤ کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp