عام انتخابات میں 70 دن باقی رہ گئے ہیں جس کے لیے زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے کمر کس لی ہے اور نئے انتخابی اتحاد بھی سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔
کچھ سیاسی جماعتوں نے تو جلسوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے اور لیڈروں نے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت پر بھی گفتگو شروع کر دی ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر رہنما یہ کہہ چکے ہیں کہ ائندہ حکومت ایک مخلوط حکومت ہوگی اور کسی بھی ایک جماعت کے لیے اکیلے حکومت بنانا ممکن نہیں ہوگا۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ائندہ انتخابات کے بعد کون کون سی سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے حکومت قائم ہونے کا امکان ہے اور کون سی جماعتیں حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھیں گی؟
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ انتخابات کے بعد پی ٹی ائی کا ایک گروپ بھی حکومت میں شامل ہو جائے گا اور ایک کمزور سی حکومت بنے گی جس میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں شامل ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ پی ڈی ایم کی طرز کا ہی اتحاد ہو گا جبکہ اپوزیشن میں پی ٹی ائی کا ایک گروپ بیٹھے گا جس کے اراکین کی تعداد انتہائی کم ہوگی۔
سہیل وڑائچ نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ پیپلز پارٹی جو ان دنوں ن لیگ کے خلاف بیان دے رہی ہے اس کا مقصد اپنا ووٹ بینک بڑھانا ہے تاہم ایسے بیانات کے باوجود آئندہ حکومت کے لیے دونوں جماعتوں کا اتحاد ہو سکتا ہے۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی احمد ولید نے کہا کہ عام انتخابات کے بعد کوئی بھی پارٹی وفاق میں اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب میں اکثریت حاصل کرے گی لیکن سندھ میں اور بلوچستان میں اسے مشکل پیش آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ سندھ میں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے وغیرہ سے اتحاد کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ اسے بلوچستان میں بھی کسی نہ کسی پارٹی سے اتحاد کرنا پڑے گا اور اگر پھر بھی اکثریت حاصل نہ ہوئی تو ن لیگ کو حکومت بنانے کے لیے لازمی طور پر پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانا پڑے گا۔
احمد ولید کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے بھی یہی کہا تھا کہ کوئی اس پوزیشن میں نہیں ہوگا کہ وہ اگلے الیکشن کے بعد اکیلا یا ایک 2 جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اگلی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار کون ادا کرے گا یہ ایک بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ ایک جمہوری عمل میں اپوزیشن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اے این پی، جے یو ائی یا سندھ اوربلوچستان ساری جماعتیں اگر حکومت کا حصہ بن جائیں گی تو پھر اپوزیشن کہاں سے بنے گی۔
احمد ولید کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو اگر انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملے تو وہ چند سیٹوں کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھے گی اور ایسی اپوزیشن جمہوری عمل کے لیے صحیح نہیں ہوگی۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد ایک مرتبہ پھر سے پی ڈی ایم طرز کی حکومت کا قیام ہو گا اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی من پسند وزارتیں حاصل کر لیں گی جبکہ پی ٹی آئی کے رہنما اپوزیشن میں ہوں گے۔
سینیئر تجزیہ کار امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جن کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں وہ اتحاد کے ذریعے حکومت قائم کریں گی۔
امتیاز عالم نے کہا کہ ائندہ انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے سادہ اکثریت حاصل کرنا ناممکن ہے ایسے میں انتخابات سے قبل اور بعد میں بہت سے اتحاد بنائے جائیں گے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا بھی اتحاد ہو سکتا ہے جس کا فیصلہ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ اگلے وزیراعظم نواز شریف ہوں گے کیونکہ جو لوگ اگلے وزیراعظم بنانے کی تیاری کر رہے ہیں انہیں نواز شریف ابھی مکمل طور پر پسند نہیں ائے۔