6سال قبل راولپنڈی میں کھلنے والے پہلے کوئٹہ کیفے کا سلسلہ ہزارہ ریجن تک پھیل گیا ہے۔ اسلام آباد کی کوئی بڑی مارکیٹ ایسی نہیں جہاں کوئٹہ کیفے کا وجود نہ ہو، چاہے وہ ایف سیکٹر ہوں یا جی سیکٹر،چھوٹی مارکیٹیں ہوں یا میگا بزنس سینٹرز۔ اور تو اور ایسے مقامات پر بھی کوئٹہ کیفے موجود ہیں جہاں پاس ہی مشہور ترین برانڈز کی کافی شاپس بھی واقع ہیں۔ حاجی احمد اچکزئی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے2017ء میں راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ میں پہلا کوئٹہ کیفے کھولا۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ انہیں کراچی میں کوئٹہ کیفے چلانے کا تجربہ تھا مگر وہاں پر مناسب جگہ نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے جڑواں شہروں میں کیفے کھولنے کا فیصلہ کیا۔ کراچی سے کوئٹہ کیفے کے کاروبار کی منتقلی کے پیچھے سیکورٹی حالات بھی رہے ہیں، جو ماضی میں ٹھیک نہیں تھے مگر اب وہاں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
چائے بنانے کی ”خاص ترکیب” جاننے والے بلوچستان کے پختون بیلٹ کے ہنر مندوں نے کراچی میں 90 کی دہائی میں ڈیرے ڈالے اور دیکھتے ہی دیکھتے کوئٹہ کیفے کی چائے اور پراٹھا کراچی کا حصہ بن گئے۔ اب یہی صورتحال اسلام آباد کی ہے۔ حاجی احمد اچکزئی کو لگتا ہے کہ کوئٹہ کیفے اب اسلام آباد کا بھی حصہ بن چکے ہیں۔ حاجی احمد اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں گزشتہ 30 سالوں میں 25 ہزار سے زائد کوئٹہ کیفے قائم کیے گئے جبکہ راولپنڈی اسلام آباد میں گزشتہ 5 سے 6 سالوں میں بننے والے کوئٹہ چائے خانوں کی تعداد 23 سو سے زائد ہے۔ مگر ان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
کوئٹہ کیفے کی کامیابی کا راز کیا ہے؟
حاجی احمد اچکزئی کے مطابق اچھی چائے پاکستانیوں کی کمزوری ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہیں زعم ہے کہ چائے کا جو گاہک ان کے پاس آئے گا، وہ پھر کسی اور چائے خانے کا رخ نہیں کر ے گا۔
یاد رہے پاکستان دنیا بھر میں چائے پینے اور امپورٹ کرنے والے والے چند بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان بیورو آف شماریات کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 184.61 ملین ڈالر کی چائے درآمد کی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اگست میں 59 ملین ڈالر سے زائد جبکہ گزشتہ ماہ ستمبر میں 58 ملین ڈالر کی چائے درآمد کی گئی۔
پتیلی کے بجائے کیتلی کیوں استعمال کی جاتی ہے؟
راولپنڈی اور اسلام آباد میں گزشتہ چند سالوں میں کھلنے والے کوئٹہ کیفے کی بڑی پہچان چائے بنانے کی خاص ترکیب ہے۔ روایتی طور پر چائے بنانے کیلئے پتیلی کا استعمال کیا جاتا ہے مگر کوئٹہ کیفے کیتلی کا استعمال کرتے ہیں۔
چائے بنانے کے لیے کیتلی کے استعمال کے حوالے سے راولپنڈی اسلام آباد میں متعدد کوئٹہ کیفیز کے مالک دولت خان کے مطابق ابتدائی طور پر کیتلی کا استعمال گوشت کی ایک خاص ڈش بنانے کے لیے کیا جاتا تھا جو بلوچستان کے بختون بیلٹ میں بنائی جاتی ہے، چائے کے لیے کیتلی کا استعمال وہیں سے منتقل ہوا۔ کیتلی کے تنگ دھانے کی وجہ سے چائے پتیلی کے مقابلے میں زیادہ بہتر پکتی ہے۔
کیا کوئٹہ کیفے چائے میں خشخاش ڈالتے ہیں؟
دولت خان کے مطابق ایسی باتیں سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں کہ کوئٹہ کیفے کی چائے میں دودھ ، پتی، پانی اور چینی یا شکر کے علاوہ بھی کوئی چیز استعمال ہوتی ہے۔ “میں کہتا ہوں یہ آرٹ ہے، یہ لوگوں کے ہاتھ کا ذائقہ ہے، اللہ تعالی نے ہمیں یہ ذائقہ دیا ہے۔ کوئی بھی شخص اس چیز کو ثابت کر دے میں انعام دوں گا،”
دولت خان نے اس بات کی بھی تردید کی کہ کوئٹہ کیفے کوئی خاص پتی استعمال کرتے ہیں جو سمگل کر کے لائی جاتی ہے۔ “ہمارے پاس وہی کھلی پتی ہے جو ہر گھر میں استعمال ہوتی ہے۔ بعض کوئٹہ ہوٹل کینیا سے آنے والی پتی استعمال کرتے ہیں جو مارکیٹ میں دستیاب دیگر برانڈ کے مقابلے میں مہنگی ہے۔ ہماری چائے میں کسی اور چیز کے استعمال کی بات درست نہیں، بس بات ذائقے کی ہے جو ہمارے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔”
مقامی چائے خانے بھی کوئٹہ کا نام استعمال کر رہے ہیں
دولت خان نے مزید بتایا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کھلنے والے کوئٹہ چائے ہوٹلز کی کامیابی کی شرح 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ کچھ ہوٹلز مالکان کے ساتھ تنازعات سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر بند ہوئے۔ کوئی بھی کوئٹہ ہوٹل کھولنے سے قبل بھرپور ہوم ورک کیا جاتا ہے جس میں جگہ کا تعین، گاہکوں کی آمد و رفت سمیت مالکان کے ساتھ طویل معاہدے جیسی چیزیں شامل ہیں۔ دولت خان کے مطابق انہوں نے ایک جگہ ہوٹل کھولنے سے قبل تقریباً ایک ماہ تک مانیٹرنگ کی۔ کوئٹہ کیفز کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے بعض مقامی چائے ہوٹل بھی کوئٹہ کا نام استعمال کر رہے ہیں مگر کوئٹہ والوں کو ان سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی کا بھی کاروبار ہو بس چلتا رہنا چاہیے۔
کوئٹہ والے معاشرتی نفسیات کا استعمال کر رہے ہیں
ایک زمانے میں کراچی میں ایرانی کیفے کا بڑا چرچا تھا۔ یہ بات مشہور تھی کہ اگر آپ نے کراچی کے ایرانی کیفے سے کچھ کھایا پیا نہیں تو آپ نے شہر کے کلچر اور روایت کا ایک خاص حصہ مِس کر دیا۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف سوشیالوجی کی پروفیسر سعدیہ سعید کے مطابق یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ کوئٹہ کیفے اسلام آباد یا راولپنڈی کی روایت یا کلچر کا اسی طرح حصہ بن چکے ہیں جیسے ایرانی کیفے تھے، مگر اتنا ضرور ہوا ہے کہ معاشرتی سطح پر کوئٹہ ہوٹل جگہوں کی پہچان کا ذریعہ بنتے جا رہے ہیں اور ان کو کسی جگہ کی لوکیشن بتانے کے لیے ریفرینس پوائنٹ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ معاشرے میں جب کسی بزنس کے ساتھ یہ چیز جڑ جائے تو اس کو کامیابی کی علامت کے طور پر لیا جائے گا۔
ڈاکٹر سعدیہ سعید نے کوئٹہ کیفیز کی کامیابی کے پیچھے ایک ممکنہ وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کیفے مالکان نے ہماری معاشرت سے جڑی ایک اور نفسیات کا بھرپور استعمال کیا ہے جس کے مطابق لوگوں کو کوئٹہ ہوٹلز پر بیٹھے میں آسانی محسوس ہو۔ عموماً ایسے کیفز پر آپ زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتے، آپ کو جلدی اپنی جگہ خالی کرنی پڑتی ہے مگر کوئٹہ کیفے پر کرسی خالی کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا جو لوگوں کو ایسے کیفز کی طرف کھینچ لاتا ہے۔
کروڑوں روپے کا کاروبار مگر این ٹی این نمبر کسی کے پاس نہیں
اسلام آباد میں گزشتہ 3 سالوں میں کھلنے والے کوئٹہ کیفے کی تعداد بارے کوئی مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹریز کے صدر سجاد سرور نے بتایا کہ اگر چہ ان کے ادارے کے ساتھ اسلام آباد کے زیادہ تر سمال بزنسز رجسٹرڈ ہیں مگر کوئٹہ کیفے کے زیادہ تر مالکان کے پاس این ٹی این نمبرز نہیں ہیں جو چیمبر کے ساتھ ممبر شپ کی بنیادی شرط ہے۔ سجاد سرور کے مطابق ایف بی آر، سی ڈی اے، اور ایم سی آئی سمیت دیگر متعلقہ ادارے یقینی بنائیں کہ اتنے بڑے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تا کہ قومی خزانے کو بھی فائدہ ہو۔