خاور مانیکا، حاجرہ پانیزئی اور عمران خان

بدھ 29 نومبر 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ساری عمر یہی سنا ہے، یہی پڑھا ہے کہ کسی کی ذاتی زندگی کو میڈیا میں ڈسکس کرنا کوئی اچھا عمل نہیں۔ لوگوں کے بیڈ رومز میں گھس کر خبریں دینے والے رکیک حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اخلاق، سماج، شرافت اور صحافت آپ کو یہ خبریں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔  ایسی خبریں نہ اچھی صحافت کے زمرے میں آتی ہیں نہ کسی اخلاقی معیار پر ان کو پرکھا جا سکتا ہے۔ ایسی سوچ اور خبر کی مناہی ہونی چاہیے۔ لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل غیر اخلاقی بات ہے، اسے طشت از بام کرنا کسی طرح سے بھی صحافت نہیں کہلا سکتا۔

گرچہ اس طرح کی خبروں میں عوام کی دلچسپی ہمیشہ ہوتی ہے۔ ایک طبقہ ہر ملک میں ہوتا ہے جس کو چسکے دار، مصالحہ دار خبریں پڑھنے کا شوق ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے میگزین اور اخبارات ہیں جن کا انحصار اسی طرز کی خبروں پر ہوتا ہے۔ وہ کبھی کسی کی طلاق کی خبر، کبھی کسی کے بریک اپ کی بریکنگ نیوز، کسی کی نامناسب تصویر، کبھی کسی کی زچگی ، حمل کی خبر اور کبھی کسی کے افیئر کی خبر پر انحصار کرتے ہیں۔ یہی ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہےلیکن صحافیانہ قدر وقیمت رکھنے والے ادارے اور افراد اس طرح کی خبروں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی تقلید سے بچتے ہیں۔

پاکستان میں بھی کچھ عرصہ پہلے اس طرح کا ایک اخلاقی معیار قائم تھا۔ مگر پی ٹی آئی کی حکومت اور ان کی سوشل میڈیا ٹرول فیکٹری نے گٹر کے وہ منہ کھولے کہ اس ملک میں کسی کی عزت نہ بچی۔ ایسے ایسے ٹرینڈ بنے کہ ان کی نقل کرنا بھی قلم کی طہارت کے منافی ہے۔ ایسی ایسی نازیبا باتیں کہی گئی ہیں کہ بیان ممکن ہی نہیں۔

پی ٹی آئی کی ٹرول فیکٹری کے ستم کا سب سے زیادہ نشانہ مریم نواز بنیں۔ حالانکہ عورت ہونے کے ناتے ان پر کوئی بھی غلیظ بات کرنے کی اجازت سماج نہیں دیتا۔ انہیں کیوں نشانہ بنایا گیا ؟ اس کی وجوہات بہت واضح ہیں۔ انہوں نے نواز شریف کی عدم موجودگی میں عمران خان اور ان کے حواریوں کا مقابلہ بھرپور طریقے سے کیا جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔

آج تک یاد ہے منڈی بہاؤ الدین میں ان کے جلسے کے موقع پر پی ٹی آئی کی ٹرول بریگیڈ نے وہ ٹرینڈ بنایا کہ اس کے بارے میں سوچ کر ہی انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔ مریم نواز نے چونکہ ڈٹ کر فسطائیت کا مقابلہ کیا اس لیے وہ عمران خان کے مصنوعی بیانیے کے لیے خطرہ بن گئیں، اس کا خمیازہ مریم نواز کو بھگتنا پڑا۔

لیکن صرف مریم نواز پر ہی کیا موقوف ہر سیاستدان، اینکر، صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ جس کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں تھا، اس کو بے پناہ ہزیمت برداشت کرنا پڑی۔

نواز شریف کے حوالے سے چور ڈاکو کی اصطلاح معروف کر دی۔ کسی نے یہ بھی نہ سوچا کہ کرپشن کا کوئی جرم نواز شریف پر ثابت نہیں ہوا۔ بس! بیٹے سے تنخواہ نہ لینا جرم قرار پایا۔ ایک اقامے پر انہیں نکال باہر کیا گیا۔ اس بے گناہی کے باوجود چور ڈاکو کے الفاظ اس شدت سے دہرائے گئے کہ بہت سے لوگ اسے سچ سمجھ بیٹھے۔  نواز شریف کی والدہ کے انتقال پر جو بیان فردوس عاشق اعوان نے دیا اس سے انسانیت بھی شرما جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن بھی تحریک انصاف کے ستم کا بارہا نشانہ بنے۔ پی ٹی آئی سے پہلے ہماری روایت تھی کہ سیاسی گالم گلوچ میں مذہبی رہنماؤں کو نہیں رگیدا جاتا تھا۔ مولانا فضل الرحمن ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے علاوہ مذہبی رہنما بھی ہیں۔ ان کے بارے میں جو ذلت آمیز مہم تحریک انصاف نے شروع کی تھی وہ  قابل نفرت ہے۔ اس طرح کے کلمات اور نام ڈالنے کی روایت گلی محلے کی لڑائی میں تو ہوتی ہے لیکن قومی سطح پر سیاسی جماعتیں ایسا نہیں کرتیں۔ تحریک انصاف نے یہ بھرم بھی توڑ دیا۔

اس کے علاوہ ہر وہ صحافی جس نے عمران خان سے اختلاف کیا، اسے ماں بہن کی گالی  دی۔ اس پر لفافہ صحافی کا الزام لگایا۔ اس کے خاندان والوں کی مقدور بھر تذلیل کی۔ اس کے پروفیشنل ازم کا مذاق اڑایا۔ اس کو ڈرایا دھمکایا  گیا۔ غرض گزشتہ چند برسوں میں تحریک انصاف کی لیڈر شپ اور ٹرول بریگیڈ نے ہر ایک پر کیچڑ اچھالا۔

اب وہی جماعت ہے، وہی ملک ہے لیکن حالات بدل چکے ہیں۔ اب مطالبات بھی بدل چکے ہیں۔ اب دوسروں پر بہتان لگانے والی جماعت کا بیانیہ یہ ہے کہ بشریٰ بی بی اور عمران خان کے بارے میں بات نہ کی جائے کیونکہ یہ ذاتی زندگی میں مداخلت ہے۔

اب وہی جماعت کہتی ہے حاجرہ پانیزئی کی کتاب زیر بحث نہیں لانی چاہیے کیونکہ یہ کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے۔  اب وہی جماعت کہتی ہے عمران خان کی عدت میں شادی والی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ دو  لوگوں کا پرائیوٹ معاملہ ہے۔ اس پر بات کرنے سے کسی کی پرائیویسی میں خلل پڑتا ہے۔

میڈیا میں بہت سے لوگ اب بھی ایسے ہیں جو ان موضوعات کو زیر بحث نہیں لانا چاہتے لیکن اس کا کیا کیا جائے  کہ جب ذاتی زندگی کے پیچیدہ اورگنجلک مسائل خود کوئی ٹی وی پر آکر شیئر کرے تو اس پر بات کرنے کا ملزم میڈیا ہے یا اس پارٹی کے کرتا دھرتا؟

خاور مانیکا نے خود پاکستان کے سب سے بڑے چینل کے سب سے اہم شو پر آکر اپنی سابقہ اہلیہ کے بارے میں گفتگو کی اور ان پر بدچلنی کے الزامات لگائے۔ اب کوئی بتائے کہ اس پر میڈیا بات کرے یا نہ کرے۔ سابقہ خاتون اول کے سابقہ شوہر خود عدالت  میں درخواست لے کر گئے کہ ان کی بیوی نے عدت میں شادی کی اس لیے اس نکاح کو غیر شرعی قرار دیا جائے۔ اب کوئی بتائے کہ کورٹ کے رپورٹر اس پر رپورٹنگ کریں یا نہ کریں۔

عمران خان کی ذاتی زندگی بھارتی گھٹیا ڈراموں کی طرح ایک ڈرامہ بن چکی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ انہی صاحب کو بھاری بھرکم مسائل تلے دبے پچیس کروڑ عوام پر مسلط کردیا گیا تھا۔ پچیس کروڑ عوام کے سوال کا جواب نہ خاور مانیکا کے پاس ہے نہ حاجرہ پانیزئی کے پاس کہ  جب خان صاحب  ایک کے بعد ایک شادیاں کیے جارہے تھے، پارٹیوں میں مدہوش پائے جاتے تھے، منشیات کے نشے میں دھت رہتے تھے اور دیگر مکروہات میں ڈوبے رہتے تھے، تب پچیس کروڑ عوام اور ان کے الام کیوں ان کے ذہن سے رفع ہو گئے تھے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp