اکتوبر کے اوائل میں جب اسرائیل نے غزہ پر بمباری کا آغاز کیا تو معروف بنگلہ دیشی فوٹو جرنلسٹ شاہد العالم جرمنی میں ایک پہلے سے طے شدہ فوٹوگرافی کی نمائش میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شریک تھے، فکر مندی محسوس کرتے ہوئے، انہوں نے گنجان آباد فلسطینی انکلیو پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری کے بعد سے انعام یافتہ بنگلہ دیشی فوٹو جرنلسٹ نے اپنے ایک لاکھ سے زائد فالورز کو فیس بک پر درجنوں بار تنازعہ کے بارے میں اپنے خیالات سے آگاہ رکھنے کے لیے پوسٹ کی ہیں۔
8 اکتوبر کو اپنی ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’نیم برہنہ اسرائیلی لاشوں کی پریڈ ہونے کی خبریں خوفناک ہیں اور اس کو درست نہیں قرار دیا جا سکتا … میں محسوس کرتا ہوں کہ تمام فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی زندگیاں تباہ ہو گئی ہیں۔‘
29 اکتوبر کو اپنی ایک اور پوسٹ میں شاہد العالم نے لکھا کہ اس ہفتے کے آخر میں ہونے والا ہولناک تشدد اسرائیلی نسل پرستی کی بدصورت حقیقت اور بنیادی حقوق اور آزادیوں سے محروم بے وطن لوگوں پر کئی دہائیوں کے قبضے کا سڑا ہو پھل ہے۔
21 نومبر کو، جرمن بی اینالے فور کنٹیمپری فوٹوگرافی نے اسی معروف اور تجربہ کار بنگالی فوٹو جرنلسٹ کو یہود دشمنی کا الزام لگاتے ہوئے ڈراپ کردیا، بی اینالے کے اعلامیہ کے مطابق، 7 اکتوبر کے بعد شاہد العالم کی مختلف پوسٹس نے اپنے فیس بک چینل پر ایسے مواد کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا، جسے یہود مخالف اور یہود مخالف مواد کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔
شاہد العالم کے دو بنگلہ دیشی شریک کیورٹرز، تنظیم وہاب اور منعم واصف، بھی شاہد العالم کے ساتھ یکجہتی کے طور پر مستعفی ہو گئے، جس سے منتظمین کو اگلے سال جرمنی کے 3 شہروں کے نمائشی دورے کو ختم کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
جرمن منتظمین کے مطابق مبینہ طور پر یہود مخالف پوسٹس میں ’شاہد کا بنگلہ دیش میں فلسطینی سفیر کے ساتھ غیر تبصرہ شدہ انٹرویو، ہولوکاسٹ کے ساتھ موجودہ جنگ کا موازنہ، اور غزہ میں فلسطینی آبادی کے خلاف ریاست اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کے الزامات شامل تھے۔
انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ شاہدالعالم نے اپنے صفحہ سے اسرائیلیوں کے خلاف ’نسل پرستانہ اور دیگر تقابلی تبصروں‘ کو بھی حذف نہیں کیا ہے، جو بظاہر ان کے کچھ فالوورز نے کیے تھے۔
عالم، وہاب اور واصف ان الزامات کی تردید کرتے ہیں، گزشتہ روز اپنے مشترکہ بیان میں ان کا موقف تھا کہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم یہ فیصلہ کریں کہ ہم تاریخ کے کس رخ پر کھڑے ہوں گے۔
الجزیرہ سے گفتگو میں شاہد العالم کا کہنا تھا کہ وہ ایک صیہونی مخالف ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ استعمار، آبادکاری، نسل پرستی اور نسل کشی کے خلاف ہیں۔ ’میں یہود مخالف نہیں ہوں، یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ جرمنی ان دونوں کو آپس میں خلط ملط کرکے سفید فام بالادستی کے ایجنڈے کو تقویت دیتا ہے۔‘
شاہدالعالم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے میں کبھی نہیں ہچکچائے، 2018 میں ٹائم میگزین نے انہیں ان کے کئی عشروں پر محیط کریئر کے دوران بنگلہ دیش میں سیاسی بدامنی کو عکس بند کرنے پر خراج تحسین پیش کیا تھا، اسی سال انہیں وزیر اعظم شیخ حسینہ پر تنقید کی پاداش میں 100 سے زائد دنوں کے لیے حراست میں بھی رکھا گیا تھا ۔