معاشی بیانیے کی ضرورت

منگل 5 دسمبر 2023
author image

محمد امین ڈھڈھی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مزاحمتی بیانیے مفاہمتی بیانیوں میں تبدیل ہو چکے۔ سویلین بالا دستی، ووٹ کو عزت دو اور جمہور راج کی آوازیں مفاہمتی بیانیے اور معیشت سدھارو کے نعروں میں دب چکیں۔ سیاست دانوں نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے چھوڑ کر ایک دوسرے کے گندے کپڑے بیچ چوراہے دھونا شروع کر دیے ہیں۔ اس سلسلہ میں پیپلز پارٹی نے منافقانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے زرداری ‘ہتھ ہولا’ جبکہ بلاول بھٹو کھل کر اپنے کل کے حلیف اور آج کے انتخابی حریف میاں نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے بیانیے (ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالا دستی) سے انحراف کا واویلا کر کے انہیں زبردستی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بٹھا کر ان کا ووٹ بینک متاثر کرنا چاہتے ہیں۔

چونکہ پاکستان تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ اور اندرونی انتشار کا شکار ہے اس لیے ووٹ بینک کے باوجود اسے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ حقائق کے برعکس پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی معتوب اور ٹکڑوں میں بٹی تحریک انصاف اگلے انتخابات میں کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے گی۔ لیکن ایجنسیوں اور دیگر اداروں کے سروے اس کی نفی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق تباہ کن ٹوٹ پھوٹ اور قیادت کے بحران کے باوجود ابھی تک عمران خان کا ووٹ بینک برقرار ہے اور انتخابات میں وہ بڑی جماعتوں کو غیر متوقع سرپرائز دے سکتے ہیں۔

بلاول کوئی واضح بیانیہ بنانے کی بجائے آدھا تیتر آدھا بٹیر بیانیہ پروان چڑھا رہے ہیں۔ وہ ایک طرف اداروں کو حدود میں رہنے اور دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کو ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے قرار دے کر اسٹیبلشمنٹ کو ان سے دور رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ وہ ملک اور فوج کی ضرورت اور چین کی سرمایہ کاری اور میگا پراجیکٹ سی پیک سے بھی شاکی نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ روٹ ہی درست نہیں۔ کوئی احترام ملحوظ خاطر رکھے بغیر وہ کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ سے انحراف کر کے ووٹ کی بے عزتی کر رہے ہیں۔ ان کی اس جارحانہ بیان بازی پر زرداری صاحب خاموش ہیں۔ لگتا ہے اس بارے دونوں باپ بیٹے میں خاموش مفاہمت موجود ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف بلاول اور پیپلز پارٹی کے دیگر قائدین کی جارحانہ بیان بازی پر صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ صرف اسی بات کا جواب دیا جاتا ہے جس میں ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کا بے بنیاد پروپیگنڈا اور اس کا ملبہ مسلم لیگ ن پر ڈالنے میں کوشاں ہے لیکن احسن اقبال نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ ہم تو صوبوں کے اختیارات کم کرنے کی بجائے مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔

جوں جوں الیکشن کا ماحول بنے گا کل تک کے اتحادی ایک دوسرے کے خفیہ راز اور لوٹ مار کو اچھالنے میں تمام حدیں پار کریں گے۔ اس پورے عرصہ میں مہنگائی، بے روزگاری، بے قابو افراط زر، بجٹ خسارے، تجارتی خساروں اور ملک کے عالمی مالیاتی اداروں کے بے پناہ قرضوں میں ڈوبنے بارے کوئی بات نہیں کرے گا۔ الیکشن مہم کا پورا فوکس مسائل کی بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہوگا اور ایسا کیوں نہ ہو عوام بھی سیاسی شعور کے فقدان کے باعث اسی طرح کے پروپیگنڈے کا اثر لیتے ہیں۔

آج جب کہ مزاحمتی بیانیے مفاہمتی بیانیوں میں تبدیل ہو چکے، عدلیہ سیاست دانوں کی سہولت کاری کی بجائے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے میں کوشاں ہے، فوج اور نگرانوں کی مشترکہ کاوشوں سے معیشت ٹریک پر ہے، دہشت گرد فوج کے مسلسل آپریشنز کے باعث بلوں میں چھپنے پر مجبور ہیں اور اسلامی ممالک کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آنے کو ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ نگرانوں اور فوج کی کوششوں سے بنے سازگار معاشی ماحول کو سیاست دانوں کی انتخابی اشتعال انگیزیوں کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔ عوام کا مسئلہ مہنگائی اور بےروزگاری ہے، انہیں ریلیف دینے کے لیے انقلابی اقدامات کیے جائیں اور سب سے بڑھ کر سیاست دانوں کو مزاحمتی اور مفاہمتی بیانیوں کی بجائے معیشت کو اپنا بیانیہ بنانا ہوگا۔ سلامتی بھی معیشت سے جڑی ہے۔ سپر پاور روس ایٹمی ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرے کے باوجود معیشت بیٹھنے پر ٹوٹ گیا تھا۔ اس لیے معیشت کو سلامتی کا بنیادی تقاضا مانتے ہوئے اس کی بہتری کے لیے مشترکہ کوشش کی جائے۔ یہی وقت کا تقاضا اور عوام کی آواز ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp