اردو کا گیارہواں کھلاڑی پطرس بخاری

منگل 5 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’’لاہور کی آب وہوا کے متعلق طرح طرح کی روایات مشہور ہیں، جو قریباً سب کی سب غلط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے باشندوں نے حال ہی میں خواہش ظاہر کی ہے کہ اور شہروں کی طرح ہمیں بھی (تازہ) آب و ہوا دی جائے لیکن بدقسمتی سے کمیٹی کے پاس ہوا کی قلت تھی، اس ليے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ مفاد عامہ کے پیش نظر اہلِ شہر ہوا کا بیجا استعمال نہ کریں، بلکہ جہاں تک ہوسکے کفایت شعاری سے کام لیں۔ چنانچہ اب لاہور میں عام ضروریات کے ليے ہوا کے بجائے گرد اور خاص خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جابجا دھوئیں اور گرد کے مہیا کرنے کے ليے مرکز کھول دیے ہیں۔ جہاں یہ مرکبات مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ امید کی جاتی ہےکہ اس سے نہایت تسلی بخش نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘

مذکوہ بالا اقتباس ’ایئر کوالٹی انڈیکس‘ کی رپورٹ سے نہیں لیا گیا بلکہ اس کا ماخذ پطرس بخاری کا مضمون ’لاہور کا جغرافیہ‘ ہے۔ یہ مضمون قریباً 96 برس قبل 1927 میں شائع ہوئی ان کی کتاب ’مضامین پطرس‘ کے 11 مضامین میں سے گیارہویں نمبر پر موجود ہے۔ یہ وہی شہرہ آفاق 11 مضامین ہیں جو پطرس بخاری کی دائمی شہرت کی اساس ہیں۔

پطرس بخاری کا عکس تحریر

’افتخار اردو‘ افتخار عارف صاحب نے تو خود ہی کہہ رکھا ہے کہ ’تم بھی افتخار عارف بارہویں کھلاڑی ہو‘۔ تاہم ’مضامین پطرس‘ کے 11 زندہ و جاوید مضامین کی بدولت پطرس بخاری اردو کی ’ڈریم ٹیم‘ کے گیارہویں کھلاڑی ہیں۔ آج اس مایہ ناز ’آل راؤنڈر‘کی 65ویں برسی ہے۔ پطرس بخاری 5 دسمبر 1958 کو لاہور کی ’اسموگ‘ (اپنی مصدقہ پیشین گوئی کے عین مطابق) سے لاکھوں کوس دور نیو یارک میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔

’جو بے ثبات ہے دنیا تو بے ثبات سہی‘

احمد شاہ بخاری (قلمی نام:پطرس بخاری) یکم اکتوبر 1898 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پیر سید اسد اللہ شاہ بخاری ولد سید غلام حسین شہر کی معروف علمی شخصیت تھے۔ پطرس کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر مشن ہائی اسکول پشاور سے میٹرک کیا۔ بی اے کے بعد 1922 میں جامعہ لاہور سے ہی انگریزی ادب میں اول پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا اور طلائی تمغے کے حقدار ٹھہرے۔ 1925 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے عمانویل کالج سے 1927 میں انگریزی ادب کی سند، اول درجے میں حاصل کی اور سینیئر اسکالر منتخب ہوئے۔

پاکستان واپس آئے اور 1927 سے 1939 تک گورنمنٹ کالج لاہور میں ادبیات کے پروفیسر رہے۔ 1927 میں ’پطرس کے مضامین‘ بھی شائع ہوئے جو چند برس قبل تحریر کیے گئے تھے۔

دائیں سے بائیں: امتیاز علی تاج، پطرس بخاری، فیض احمد فیض اور کھڑے ہوئے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم

1939 میں دہلی میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو تعینات ہوئے جبکہ 1941 سے 1947 تک ڈائریکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو خدمات انجام دیں۔ 1947 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے، پطرس نے یہاں 1950 تک فرائض نبھائے یہ کالج کا سنہرا ترین دور تھا۔

1951 میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ مقرر ہوئے اور 1955 میں عہدے سے سبکدوشی پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل داگ ہمارشولد (Dag Hammarskjold)نے پطرس کے لیے خصوصی عہدہ تخلیق کروایا اور انہیں اقوام متحدہ کے شعبۂ اطلاعات کا ہیڈ مقرر کیا، دوران سروس 5 دسمبر 1958 کو 60 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔

امریکا: پطرس بخاری کی آخری آرام گاہ

’کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگِ رہ بری بلا ہے‘

پطرس بخاری اردو، انگریزی کے بلند پایہ انشا پرداز تھے۔ دونوں زبانوں میں مضامین لکھے، انگریزی سے کئی تحاریر اور ناول اردو کے قالب میں ڈھالے۔ اردو اور فارسی میں شاعری بھی کی۔ کئی کتابوں کے دیباچے لکھے۔ بلا کے مقرر اور بذلہ سنج تھے۔ اردو کے معتبر نقاد ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق پطرس بخاری اردو میں ’تحریف‘ کے موجد بھی ہیں۔ ان کے مضمون ’کتے‘ کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
’کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‘
کہا جا سکتا ہے کہ پطرس کی ’تحریفانہ ظرافت‘ کو مشتاق احمد یوسفی نے جلا بخشی اور خوب داد سمیٹی۔

پطرس بخاری کی یادگار تصویر

’اردو میں سب سے کم سرمایہ چھوڑا لیکن کتنا اونچا مقام پایا‘

پروفیسر رشید احمد صدیقی کہتے ہیں کہ ’اگر ہم ذہن میں کسی ایسی محفل کا نقشہ جمائیں، جہاں تمام ملکوں کے مشاہیر اپنے اپنے شعر و ادب کا تعارف کرانے کے لیے جمع ہوں تو اردو کی طرف سے بہ اتفاق آراء کس کو اپنا نمائندہ انتخاب کریں گے؟ یقیناً پطرس بخاری کو۔ پطرس نے اس قسم کے انتخاب کے معیار کو اتنا اونچا کر دیا ہے کہ نمائندوں کا حلقہ مختصر ہوتے ہوتے معدوم ہونے لگا ہے۔ یہ بات کسی وثوق سے ایسے شخص کے بارے میں کہہ رہا ہوں، جس نے اردو میں سب سے کم سرمایہ (11 مضامین) چھوڑا ہے لیکن کتنا اونچا مقام پایا۔‘

’بخاری صاحب میرے استاد تھے اور مجھے انہوں نے ہی تراشا‘ فیض

پطرس کے پوتے ایاز بخاری کے مطابق’بخاری صاحب کے دوست بہت تھے اور شاگرد بھی لیکن صرف ایک شخص تھا جو شاگرد بھی تھا اور دوست بھی اور وہ تھے فیض صاحب۔ 1980ء کی دہائی میں ایک تقریب میں کسی نے کہا کہ بخاری صاحب کا کیا کام ہے، 11 مضامین، اس کے علاوہ انہوں نےکیا دیا؟ فیض صاحب نے سوال کرنے والے شخص سے پوچھا آپ کا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے تعریفوں کے پل باندھ دیے تو فیض صاحب نے کہا کہ ’بخاری صاحب میرے استاد تھے اور مجھے انہوں نے ہی تراشا۔‘

’مری تلاش میں فردا کی روشنی بھی ہے‘

1945 میں حکومتِ برطانیہ نے پطرس بخاری کو کمپینئن آف دی انڈین ایمپائر (Companion of the Indian Empire) سے نوازا۔

اقوامِ متحدہ میں تیونس کی آزادی کی حمایت میں پطرس کی بیش بہا خدمات کے سلسلے میں حکومتِ تیونس نے آپ کے اعزاز میں ایک سڑک کا نام پطرس بخاری کے نام پر رکھا۔

پاکستان پوسٹ نے یکم اکتوبر 1998 میں پطرس بخاری کے صد سالہ یوم پیدائش کے موقع پر ان کی گرانقدر ادبی، تعلیمی، ثقافتی اور سفارتی خدمات کے اعتراف میں 5 روپے کا یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔

پطرس بخاری اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل داگ ہمارشولد کے ہمراہ

سن 2000 میں کیمبرج یونیورسٹی کے عمانویل کالج کی جانب سے ’بخاری انگلش پرائز‘ کا اجرا کیا گیا تھا۔ پطرس پہلے پاکستانی اور دوسرے ایشیائی تھے، جنہوں نے 1927 میں عمانویل کالج سے انگریزی ادب کی سند اول درجے میں حاصل کی تھی۔

2003 میں حکومت پاکستان نے پطرس بخاری کو ’ہلال امتیاز‘ کے اعزاز سے نوازا تھا، جو پاکستان کا دوسرا بڑا سول اعزاز ہے۔

علامہ اقبال کی نظم ’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘

آغا بابر اپنی کتاب ’خدو خال‘ میں لکھتے ہیں ’بخاری صاحب امریکا سے جنیوا جاتے ہوئے 3 دن لندن میں ٹھہرے اور وہاں انہوں نے بھائی عاشق بٹالوی کو ڈھونڈ نکالا۔ دوران گفتگو انہوں نے بھائی عاشق کو بتایا کہ علامہ اقبال کی نظم ’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘ مجھے مخاطب کرکے لکھی گئی تھی۔ میں نیا نیا ولایت سے آیا تھا علم کا خمار تھا۔ علامہ اقبال کے سامنے بے محابہ علم اور فلسفے کی نمائش کی تو انہوں نے یہ نظم لکھ کر میری طبیعت صاف کردی تھی۔

’پطرس نے اپنی ظرافت کا مواد زندگی سے لیا‘

’مضامین پطرس‘ کے دیباچہ میں انہوں نے لکھا تھا ’اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چُرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp