سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے اپنی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنے سے متعلق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن کو خط لکھا ہے۔
جسٹس مظاہر نے نقوی نے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ بغیر کسی مزید تاخیر کے میری طرف سے دائر آئینی پٹیشنز کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق پہلے بھی خط میں 2 آئینی درخواستوں کو طے کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
اپنے خط میں جسٹس مظاہر نقوی نے قرار دیا ہے کہ حیران کن بات ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں طے شدہ وقت گزر جانے کے باوجود کسی بھی درخواست کو نہ تو نمبر دیا گیا ہے اور نہ ہی عدالت کے سامنے مقرر کرنے کے عمل میں ڈالا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 3 اور 7 کے تحت آپ کو 14 دن کے اندر 184(3) کے تحت دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے طے کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق انہوں نے20 نومبر اور 30 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف کارروائی کو چیلنج کرنے والی 2 آئینی درخواستیں دائر کی ہیں۔
آئینی اور عبوری ریلیف کی درخواستیں
جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق آئینی درخواستوں اور عبوری ریلیف کے لیے درخواستوں کے دائر کیے جانے کے باوجود کونسل میرے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ یہ عمل سپریم کورٹ کے سامنے میری آئینی درخواستوں کو سنگین طور پر متاثر کر رہا ہے۔
Application for Early Fixation of CPs by akkashir on Scribd
خط کے مطابق جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا ہے کہ بدنیتی پر مبنی بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر میرے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا ہے۔ آئینی درخواستوں اور عبوری ریلیف کی درخواستوں کی سماعت کے لیے طے کرنے میں مزید تاخیر میرے لیے شدید تعصب ہو گا۔
درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا مطالبہ
جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق مزید اگر کارروائی کی بنیاد پر کوئی حکم صادر کیا جاتا ہے، تو یہ آئینی پٹیشنز میں میری استدعا کو متاثر کر سکتا ہے۔ انہوں نے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ میری آئینی درخواستیں اور میری طرف سے دائر عبوری ریلیف کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی جائیں۔