سوشل میڈیا آگہی: مردوں کے کہنے پر ووٹ ڈالنے والی خواتین اس مرتبہ کیا کریں گی؟

جمعرات 7 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں بیشتر خواتین کو ان کی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کا مکمل اختیار آج بھی نہیں ہے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ خواتین یا تو ووٹ دیتی ہی نہیں اور جو دیتی ہیں انہیں اپنی مرضی سے ووٹ دینے کا حق نہیں دیا جاتا۔

ایسا برسوں سے چلا آرہا ہے۔ باپ، بھائی اور شوہر یہ وہ تمام رشتے ہیں جو کسی بھی گھر میں یہ طے کرتے ہیں کہ ان کی بہن، بیوی یا بیٹی کسے ووٹ دے گی۔

الیکشن کمیش آف پاکستان کے اعداوشمار کے مطابق آئندہ انتخابات میں 12 کروڑ 70 لاکھ پاکستانی ووٹ ڈال سکیں گے۔ ان میں خواتین ووٹرز کی کل تعداد 58472014 ہے۔ خواتین ووٹرز کی تعداد میں سنہ 2018 کے بعد 26 لاکھ 82 ہزار 60 کا اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے سوشل میڈیا پر سیاسی سرگرمیوں نے کافی زور پکڑا ہے۔ حتیٰ کہ وہ سیاسی بیٹھکیں جو کبھی گھروں میں لگا کرتی تھیں اب وہ اسمارٹ فونز کے ذریعے سوشل میڈیا پر لگتی ہیں۔ گھروں میں خواتین اس بیٹھک میں شامل نہیں ہو سکتی تھیں تاہم سوشل میڈیا نے نہ صرف ان خواتین کو سیاست کے بارے میں سمجھنے بلکہ سیاسی بحث میں حصہ لینے کا بھی موقع فراہم کیا ہے۔

’اس مرتبہ اپنی مرضی سے ٹھپہ لگاؤں گی‘

روبینہ اصغر کا تعلق اسلام آباد کے علاقے بھارہ کہو سے ہے جنہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کے وہ ایک پشتون خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جہاں عورت کو ہر فیصلہ خود کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔

روبینہ نے کہا کہ انہوں نے پوری زندگی کبھی سیاست میں دلچسپی نہیں لی لیکن ووٹ ہر بار دیا کرتی تھیں اور وہ اس طرح کہ وہ شوہر کے ساتھ پولنگ اسٹیشن جاتی تھیں اور وہ جس امیدوار کا کہتے اس کے نام پر ٹھپہ لگادیا کرتی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ سنہ 2017 سے سیاسی ماحول کافی دلچسپ ہو گیا تھا اور وہ شوہر کے ساتھ ٹی وی دیکھا کرتی تھیں اور جب اکثر کچھ سمجھ نہیں آتا تھا تو پوچھ لیا کرتی تھیں جس پر ان کے شوہر ہمیشہ یہ کہہ کر چپ کروا دیا کرتے تھے کہ یہ سب تمہارے مطلب کی باتیں نہیں ہیں۔

روبینہ نے کہا کہ انہوں نے پہلی بار پورے ہوش و حواس کے ساتھ ووٹ سنہ 2018 میں دیا تھا لیکن اس وقت بھی شوہر کے کہنے پر ہی دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے شوہر نے بتایا تھا کہ کیسے سب کرنا ہے اور کس پر ٹھپہ لگانا ہے، انہوں نے کہا تھا کہ غلطی سے بھی کہیں اور ٹھپہ مت لگانا اور وہ ووٹ سے پہلے ایک کاغذ  بھی لے آئے تھے اور مجھے پہچان کروائی کہ فلاں انتخابی نشان پر ٹھپہ لگانا لہٰذا میں نے پولنگ بوتھ میں جاکر ویسا ہی کیا جیسا انہوں نے مجھے سمجھایا تھا‘۔

اب روبینہ کے پاس موبائل آ گیا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر میں ویڈیوز دیکھتی ہوں اور اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ مجھے ووٹ کس کو دینا ہے لیکن میرے شوہر اب بھی بضد ہیں کہ میں ان کی مرضی کے مطابق ہی ووٹ دوں۔ روبینہ نے کہا کہ ویسے وہ انہیں کہہ تو دیتی ہیں کہ وہ ان کی ہدایت پر ہی عمل کریں گی لیکن پولنگ اسٹیشن جا کر وہ اپنی مرضی سے ہی ٹھپہ لگائیں گی۔

’مجھے باور کرایا گیا کہ خواتین کے ووٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘

راولپنڈی کی رہائشی اقصیٰ شاہد نے آج تک کبھی ووٹ نہیں دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر کچھ برس بعد انتخابات کا شور شروع ہو جاتا ہے اور ان کے ہوش سنبھالنے کے بعد 5 مرتبہ الیکشن ہو چکے ہیں لیکن وہ کبھی ووٹ ڈالنے نہیں گئیں اور نہ ہی انہں یہ پتا ہے کہ ووٹ کہاں جا کر دینا ہوتا ہے کیونکہ شادی سے پہلے والد اور بھائی نے کبھی والدہ کو بھی نہیں جانے دیا تھا اس لیے وہ خود بھی کبھی نہیں گئیں۔

اقصیٰ نے کہا کہ شادی کے بعد بھی ان سے کسی نے ووٹ دینے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی کیونکہ ان کے ہاں ووٹ دینے کا رواج نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ آزاد خواتین ہوتی ہیں جو ووٹ دیتی ہیں لیکن ہمارے خاندان میں لڑکیاں اتنی آزاد نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’جب میں نے ایک مرتبہ جب اپنے شوہر سے  دریافت کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ عورت کے ووٹ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ان کا ووٹ دینا ضروری نہیں ہوتا اس لیے عورت ووٹ دینے نہ ہی جائےتو بہتر ہے‘۔

یاد رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 9 کے مطابق ہر علاقے میں 10 فیصد خواتین کا ووٹ پڑنا ضروری ہے ورنہ وہاں دبارہ الیکشن کروانے پڑتے ہیں۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے ترجمان ہارون شنواری کہتے ہیں کہ سنہ 2018 میں خیبرپختونخواہ میں شانگلہ ڈسٹرکٹ 24 میں خواتین کے ووٹ نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ الیکشن کروائے گئے تھے کیونکہ خواتین کا بھی ووٹ ڈالنے کا اتنا ہی حق ہےجتنا کہ مردوں کا۔

کالج و جامعات میں تربیتی ورکشاپس

ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا کہ خواتین ووٹر کی تعداد عام طور پر کم ہوتی ہے کیونکہ یا تو انہیں ان کے گھر والے اجازت نہیں دیتے یا انہیں شعور ہی نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ بہت سی پڑھی لکھی خواتین بھی ووٹ نہیں دیتیں جسے مد نظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے طلبہ و طالبات کے لیے ووٹرز آگاہی مہم کے سلسلے میں گورنمنٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تربیتی ورکشاپ کا آغاز کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ورکشاپ کا مقصد اساتذہ کے علاوہ طلبا کو بھی ووٹ کی اہمیت اور طریقہ کار سے آگاہ کرنا ہے تاکہ خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہو اور یہ تربیتی ورکشاپس ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں فروری 2024 تک جاری رہیں گی۔

’اس ملک میں ووٹ دینا نہ دینا برابر ہے‘

فرح اخلاق 4 بچوں کی ماں ہیں جنہوں نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے باپ، بھائیوں اور شوہر سے متاثر ہو کر ووٹ دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ چونکہ مردوں کو زیادہ پتا ہوتا ہے کہ کون سہی اور غلط ہے اس لیے ہمیشہ جسے گھر کے مرد ووٹ دیتے ہیں میں بھی انہی کو دے دیتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ سنہ 2018 کے انتخابات میں انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کے کہنے پر ووٹ دیا تھا کیونکہ اس نے مجھ سے وعدہ لیا تھا اس لیے میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے اس کی خواہش کے مطابق ووٹ دے دیا۔

فرح اخلاق کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے بعد انہیں لگتا ہے کہ سب ایک ہی جیسے ہیں اور کسی کو ووٹ نہ دینا ہی زیادہ بہتر ہے کیونکہ کوئی بھی پاکستان کے لیے کچھ نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا کے استعمال سے کم از کم اتنا شعور آ گیا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اس لیے اس ملک میں ووٹ نہ دینا ہی سب سے بڑی سمجھداری ہے کیونکہ یہاں ووٹ دینے یا نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp