انڈونیشیائی سفیر نے پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات میں بہتری کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈونیشیا اس ضمن میں دونوں ملکوں کے مابین موجودہ تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالرز تک بڑھانے کا خواہشمند ہے۔
ورلڈ ایکو نیوز کے دفتر کے دورے کے دوران اسلام آباد میں تعینات انڈونیشیا کے سفیر ایڈم ملاورمن ٹوگیو کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی منڈی میں بڑے پیمانے پر اپنی برآمدات میں اضافہ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور انڈونیشیا اس کا ایک بہترین خریدار ملک ثابت ہوسکتا ہے۔
انڈونیشیائی سفیر کے مطابق پاکستان کپڑے، کھیلوں کے سامان اور کھجوروں کی برآمدات کرتے ہوئے انڈونیشیا کے ساتھ تجارت کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں تیارکردہ طبی آلات، چمڑے اور ٹیکسٹائل کو بھی انڈونیشیائی مارکیٹ کے لئے ضروری اشیا قرار دیا۔
ایڈم ملاورمن ٹوگیو کے مطابق پاکستان میں کپڑے کی صنعت سے وابستہ کاروباری افراد کے لیے انڈونیشیا ایک اچھی منزل ثابت ہوسکتا ہے کیوں کہ ان کی حکومت نے کپڑے کی درآمدات پر ٹیکس کی چھوٹ فراہم کی ہوئی ہے۔
انڈونیشیائی سفیر ایڈم ملاورمن ٹوگیو نے واضح کیا کہ انڈونیشیا سے پاکستان کو پام آئل کی درآمد پر کسی پابندی کا سامنا نہیں بلکہ انکی حکومت نے مقامی صعنت کاروں کو اپنی پیداوار سے چھ گنا بڑھ کر برآمدات کی اجازت دے رکھی ہے۔
سفیر ایڈم ملاورمن ٹوگیو نے پاک۔انڈونیشیا اسکالرز کے تبادلے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک پہلے ہی پاکستانی طلبا کو وظائف کی پیشکش کرچکا ہے۔ پاکستانی طلبا کو انڈونیشیا کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے مختص وظائف سے استفادہ کرنا چاہیے۔
انڈونیشیائی سفیر نے انڈونیشیا، چین، ویتنام، ملائیشیا اور فلپائن سمیت 15 ممالک کے علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری میں شمولیت کے لیے پاکستان کو ایک عبوری مقصد کی تشکیل کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیا پاکستان کے لیے آسیان ممالک کے ساتھ تجارتی روابط استوار کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
سفیر ایڈم ملاورمن ٹوگیو کا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈونیشیا دونوں بدھ مت سے وابستہ بیشتر تاریخی مقامات کے حامل ممالک ہیں لہذا اس سلسلہ میں دونوں ملکوں کے مابین مذہبی سیاحت کو بھی فروغ دیتے ہوئے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
سفیر نے کہا کہ پاکستان پاک۔انڈونیشیا ترجیحی تجارتی معاہدے کو استعمال کرتے ہوئے آسیان ممالک کی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے جہاں کی مارکیٹ 640 ملین آبادی پر مشتمل ہے۔ اس نوعیت کی تجارت سے دونوں ممالک کی مشترکہ لگ بھگ 500 ملین آبادی بھی تجارتی فوائد سمیٹ سکتی ہے۔