ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ ہم سب ماسک لگا کر اک دوسرے سے 6 انچ کے فاصلے پر پِھر رہے ہوتے تھے کہ کہیں کوویڈ نہ ہوجائے۔ اپنے محبوب سے بھی زیادہ قریب تھا ماسک۔ محبوب بھول جاتا تھا لیکن ماسک نہیں بھولتا تھا اور جس نے ماسک نہیں پہنا ہوتا تھا اس پر لعن طعن کرنے کا دِل کرتا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے، جب ہم جن تھے۔ معذرت!
کوویڈ کی ویکسین لگنے کے بعد اب 2023 میں یہ بیماری ایک بھیانک یاد بن کر رہ گئی ہے۔ اسی طرح ماسک لگانا بھی ایک خواب لگتا ہے حالانکہ لاہور میں رہتے ہوئے ہم سب کو ماسک کی ضرورت ہے کیوں کہ اِس کی ‘پر فظا’ ہوا میں ہماری زندگی کے سات سال کم ہو رہے ہیں۔جب ہم سب ماسک بھول کے آگے چل دیے ہیں تو ایک شخص ابھی تک ماسک کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ شخص ہے میاں نواز شریف۔ دنیا الٹی گھوم سکتی ہے لیکن میاں صاحب کا ماسک کوئی نہیں اُتار سکتا۔ اِس وقت دورِ حاضر کے بڑے بڑے فلاسفر اور تجزیہ کار یہ پتہ لگا رہے ہیں کہ یہ ماسک میاں صاحب کی زندگی میں اتنا ضروری کیوں ہے؟
میاں صاحب جیسے ماسک لگاتے ہیں اس سے وہ خود محفوظ ہیں نہ اگلا بندہ۔ وہ ماسک ناک کو ڈھکتا ہے نہ منہ کو۔ اس کا سفر بس ٹھوڑی تک ہے۔ وہ آگے جاتا ہے نہ پیچھے، بس وہاں ہے اور شاید ہمیشہ رہنے والا ہے۔ میاں صاحب کا ناک، معذرت کے ساتھ ، کوئی خاص خوبصورت بھی نہیں۔ ماسک کی وجہ سے یا آپ کی نظر ناک پر جاتی ہے یا ماسک پر۔ میاں صاحب کی پیازی رنگ کی گالوں پر کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ میاں صاحب کی اپنے آپ سے دشمنی نہیں ہے؟
ہر کوئی میاں صاحب کے ماسک کے بارے میں اندازے لگاتا رہتا ہے کہ آخر وہ اِس طرح ماسک پہنتے ہی کیوں ہیں؟ کیا یہ ماسک ہی ان کی دلہن ہے؟ کیا میاں صاحب نے ماسک کا قرضہ دینا ہے؟ کیا یہ ماسک میاں صاحب کےٓ نہ مل سکے جہیز کا ہے؟ کیا اِس ماسک اور میاں صاحب کی محبت اِس دور کی لیلیٰ مجنوں کی کہانی ہے؟ نازکی اِس ماسک کی کیا کہیے، پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے، بھائی جان؟ میرے دماغ میں اکثر میاں صاحب اپنے ماسک کو یہ کہتے نظر آتے ہیں “کاش میں اِس ماسک کا دھاگہ ہوتا”۔ یہ ماسک، ٹھوڑی اور ناک کا ‘لوو ٹرائی اینگل’ ہے جس میں میاں صاحب کا ماسک ٹھوڑی کی قربت کا عادی ہے جب کہ ناک سے جدائی کا مجرم !
پہلے تو ماسک کالے رنگ کا ہوتا تھا لیکن اب میاں صاحب جس رنگ کا کرتا زیبِ تن کرتے ہیں اسی رنگ کا ماسک بھی ہوتا ہے۔ روز رنگ بدلتے ہیں، میاں صاحب کے ماسک اور میاں صاحب خود! جیسے میاں صاحب کرسی نہیں چھوڑتے، اسی طرح میاں صاحب ماسک بھی نہیں چھوڑتے۔ جہاں تک مجھے لگتا ہے، میاں صاحب شاید ماسک اپنی ‘ڈبل چن’ کو چھپانے کے لیے لگاتے ہیں۔ یہ میرا صرف اندازہ ہے کیوں کہ میں بھی اکثر ایسے ہی اپنا منہ چھوٹا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
میں تو شاید یہ راز نہ پا سکوں، شاید اِس تحریر کو پڑھنے والے ہی کچھ بتا سکیں کہ ‘اے ماسک کی چاندا اے’ ؟