سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی ان کے لیے کافی خوش آئند ثابت ہورہی ہے۔ پہلے انہیں ایون فیلڈ کیس میں بریت ملی اور اب تک العزیزیہ کیس میں جتنی بھی پیشرفت ہوئی ہے وہ بھی ان کے حق میں ہی جارہی ہے۔ 12 دسمبر کو اس کیس کی ایک اور سماعت ہونی ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ شاید وہ اس مقدمے میں بھی بری ہوجائیں۔
اس پورے معاملے میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ جس طرح سنہ 2018 میں سہولت کاری کے ذریعے عمران خان کو ملک کا وزیراعظم بنایا گیا تھا اسی طرح اس مرتبہ نواز شریف کے ساتھ خصوصی سہولت کاری کی جا رہی ہے اور نواز شریف کو سنہ 2024 کے انتخابات میں جتوا کر ملک کا وزیراعظم بنا دیا جائے گا۔
اس بنیاد پر نواز شریف اور مسلم لیگ نون سے متعدد جماعتوں کو تحفظات ہیں اور وہ اس کا گاہے بہ گاہے اظہار بھی کر چکے ہیں جبکہ متحدہ قومی موومنٹ اور جے یو ائی جیسی کچھ جماعتیں مسلم ن کے ساتھ اتحاد کا اعلان کر چکی ہیں۔
دوسری طرف نواز شریف نے جمعے کو پارلیمانی بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے جن کی بنیاد پر جیلوں میں ڈالا گیا اور سزائیں دلوائی گئیں مگر انہوں نے کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ نواز شریف نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کو اس گرداب سے نکالا جائے اور یہی نیت لے کر وہ میدان میں آئے ہیں۔
اس پوری صورتحال میں وی نیوز نے پیپلز پارٹی اور سیاسی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا نواز شریف ہی اگلے وزیراعظم ہوں گے اور سیاسی جماعتوں کو کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف ہی آئندہ وزیراعظم ہوں گے۔
’پیپلز پارٹی سے پہلے میڈیا نےنواز شریف کو فیور دیے جانے کی نشاندہی کی‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں کچھ بھی دو جمع دو 4 نہیں ہوتا سیاست میں چال چلن دیکھے جاتے ہیں جیسا رویہ ہم سیاسی جماعتیں دیکھ رہی ہیں تمام میڈیا نے بھی اسی طرح کا رویہ دیکھا ہے، نواز شریف جب سے لندن سے چلے ہیں اور جس طرح ان کا استقبال ہوا، جس طرح کیسز میں ریلیف ملا اور جس طرح ان کی جماعت کے لوگوں کو ریلیف دیا گیا تو یہ پورا ایک تسلسل ہے جو ہم سے بھی پہلے میڈیا کے تقریبا تمام چینلز نے محسوس کیا اور اس پر بات کی، ہم نے تو یہ بات میڈیا کے بعد کی ہے۔
مزید پڑھیں
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ امتیازی سلوک پر ن لیگ کے دوستوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ماضی میں جو زیادتیاں ہوئی ہیں یہ ان کا ازالہ ہو رہا ہے تو یہ ایک طرح کا اعتراف تھا کہ کسی طرف سے یہ کچھ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس وقت عوام میں ہے اور بھرپور طریقے سے الیکشن کی تیاری کر رہی ہے، کسی جماعت کے کارکن سے پوچھا جائے کہ اگلا وزیراعظم کون ہو گا تو وہ یہی کہے گا کہ اس کی جماعت کا لیڈر وزیراعظم بنے گا، ہمارا لیڈر بلاول بھٹو تو ویسے بھی وزیراعظم بننے کی پوزیشن میں ہیں۔
’مقدمات میں کلیئر ہونے تک نواز شریف کا وزیراعظم کی دوڑ میں شامل ہونا ممکن نہیں‘
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار ابصار عالم نے کہا کہ نواز شریف اسی صورت میں آئندہ وزیراعظم بن سکتے ہیں جب باقی سیاسی جماعتیں بھی مسلم لیگ نواز کا ساتھ دیں، اب تو نواز شریف کے لیے کیسز میں قانونی مسائل بھی ہیں، اگرچہ یہ دعویٰ تو کیا جا رہا ہے عدالتیں نواز شریف کو کیسز میں بالکل کلیئر کر دیں گی لیکن جب تک کلیئر ہوں گے نہیں تب تک تو ہم یہ کہہ نہیں سکتے کہ ایسا ہونے جا رہا ہے، یہ ن لیگ کے لیے ایک مشکل صورتحال ہوگی۔
ابصار عالم نے کہا کہ نواز شریف کو اس لیے بھی واپس لایا گیا ہے کہ مسلم لیگ نواز چاہتی تھی کہ ان کا جو گرتا ہوا ووٹ بینک اور گرتی ہوئی مقبولیت ہے اس کو کنٹرول کیا جائے، اس وقت مسلم لیگ ن کے لیے نواز شریف کا پاکستان میں ہونا انتہائی ضروری ہے، پی ڈی ایم حکومت کا مہنگائی کا ملبہ مسلم لیگ نواز پر ڈالا گیا ہے، ن لیگ سمجھتی ہے کہ اب شہباز شریف کے لیے عوام میں مقبولیت حاصل کرنا مشکل ہو گا جبکہ نواز شریف بآسانی پارٹی کو عوام میں مقبولیت دلوا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو چوتھی مرتبہ پرائم منسٹر وزیراعظم بننے کے لیے اپنے خلاف تمام کیسز کو ختم کرنا ہوگا اور ان کیسز کو ختم کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہے لیکن الیکشن میں ابھی 70 سے بھی کم دنوں کا وقت رہ گیا ہے اب اگر انتخابات 8 فروری 202 کو ہوتے ہیں تو اس سے پہلے پہلے اپنے کیسز ختم کر کے انتخابی عمل میں شامل ہونا نواز شریف کے لیے بہت مشکل ہوگا۔
’موجودہ صورتحال سے لگتا نہیں کوئی بھی پارٹی تنہا اپنا وزیراعظم لاسکے‘
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا کہ نواز شریف اگلے وزیراعظم ہوں گے یا نہیں ہوں گے اس بات کا فیصلہ انتخابات کے بعد ہی کیا جائے گا اس وقت کی جو صورتحال ہے اس کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابات کے بعد اس پوزیشن میں نہیں ہوگی کہ وہ اپنا وزیراعظم بنا سکے اس لیے میں نواز شریف کو ائندہ وزیراعظم بنتا نہیں دیکھ رہا۔
امتیاز عالم نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات سے قبل ایک سیاسی ماحول بنایا جاتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کا وزیراعظم لایا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ہوگی تو تب ہی نواز شریف اگلے وزیراعظم بن سکیں گے لیکن فی الوقت مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
’اسٹیبلشمنٹ کا موڈ بدل گیا تو نواز شریف کو وزارت عظمیٰ ملنا مشکل ہوگا‘
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ جس طرح سے نواز شریف کو کیسز میں اب تک ریلیف ملا ہے اور ان کی راہ میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے وزیراعظم نواز شریف ہی ہوں گے لیکن ابھی انتخابات میں خاصا وقت ہے اور پھر اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا موڈ یا رویہ نواز شریف کے لیے کچھ بدل جائے ایسی صورت میں نواز شریف کے لیے وزیراعظم بننا مشکل ہوگا لیکن فی الوقت نواز شریف ہی اگلے وزیراعظم نظر آرہے ہیں۔